08 اکتوبر ، 2013
لندن…ملالہ یوسفزئی کاکہناہے کہ کسی کو بھی جان سے مارنا مشکل ہے شاید اسی لیے ان پر گولی چلانے والے کے ہا تھ کانپے ہوں گولی چلانے والا لڑکا 20 سال کا تھا۔بندوق سے کسی کی جان لینا مشکل ہوتا ہے۔شاید اسی لیے اس کے ہاتھ کانپے ہوں۔یہ کہنا ہے لڑکیوں کی تعلیم کیلیے مہم چلانے والی 16 سالہ لڑکی ملالہ یوسفزئی کا ایک انٹرویو میں۔لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیاوہ اس لڑکے سے بدلہ لیں گی ۔تو انہوں نے کہا۔نہیں!!! وہ اس لڑکے کو سوئی کے برابربھی نقصان پہنچانے کے بارے میں نہیں سوچ سکتی۔کیونکہ وہ امن اور معاف کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔ایک سوال پر انہو ں نے کہا کہ انہیں شاہد آفریدی پسند ہے ، اور شین واٹسن بھی۔انٹرویو کے دوران ہنستے ہنستے ملالہ نے اپنے والدین کا بھانڈا بھی پھوڑا۔ کہتی ہیں کہ ان دونوں کی لو میرج تھی ،ملالہ یوسفزئی ان دنوں برطانیہ میں تعلیم حاصل کررہی ہیں ، ان کی خود نوشت۔ آئی ایم ملالہ۔آج شائع کی جارہی ہے۔ جس کے کچھ اقتباسات منظر عام پر آچکے ہیں ، اپنی کتاب میں ملالہ نے اس وقت کا ذکر کیا ، جب طالبان رہنما محمد صوفی ان کے علاقے میں نوجوانوں کی جہاد ی بھرتی کے لیے آئے۔ملالہ نے لکھا کہ ان کے والد ضیاء الدین اس وقت 12 سال کے تھے جب انہوں نے جہاد کی تیار ی کی اور شہادت کی دعائیں مانگنا شروع کیں ، لیکن ایک رشتے دار کیساتھ دینے پر وہ مکمل برین واشنگ سے بچ گئے ،ملالہ کاکہنا تھا کہ اصل ملالہ تو کہیں کھو گئی ہے ،جسے وہ تلاش نہیں کرسکتی۔اور عالمی شہرت پانے والی ملالہ وہ ہے جسے طالبان نے گولی ماری ،یہ ان کی شناخت نہیں تھی ،ملالہ کوامن کے نوبل انعام کے لیے ہاٹ فیورٹ کہا جارہا ہے۔