14 جنوری ، 2014
ممبئی…آج اردو کے ممتازترقی پسند شاعرکیفی اعظمی کا یوم پیدائش ہے، ان کی جوشیلی،باغیانہ اوررومانی نظمیں آج بھی بے مثال ہیں۔ یہ عوامی شاعر اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے جن کا اصل نام اطہر حسین رضوی تھا۔ پندرہ برس کی عمر میں تعلیم کیلئے لکھنوٴ پہنچنے سے پہلے ہی شعر گوئی کا شوق تھا چنانچہ لکھنوٴکی رومان پرورآب و ہو ان کے شوق کو بہت راس آئی اور پھر وہ اپنے وقت کے مقبول ترین اوررومانی نظموں کے ممتاز ترقی پسند شاعرکہلائے جو 11برس کی عمر میں کہہ چکے تھے۔
اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے
ممبئی پہنچے ،جہاں صحافت کا شعبہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی جلا میں بھی مدد گار ثابت ہوا۔لیکن شاعری ہیں ان کی پہچان بنا۔ وہ بنیادی طور پر نظموں کے شاعرتھے۔ انہوں نے بہت سی جو شیلی ،باغیانہ اور پر اثرنظمیں لکھیں۔
وہ مجھے بھول گئی اس کی شکایت کیا ہے
رنج تو یہ ہے کہ رو رو کے بھلایا ہوگا
کہتے ہیں کہ ان کی شاعری کی مقبولیت کی اصل وجہ ان میں جذبات کا بے پناہ اظہار، الفاظ کی خوبصورتی اور غیر منصفانہ معاشرے کے خلاف بغاوت کا عنصر تھا۔انہوں نے لاتعداد فلموں کے لئے نغمے لکھے، لیکن فلم پاکیزہ کے گانے ،
چلتے چلتے کہیں کوئی مل گیا تھا،
ہیر رانجھا کے گانے ، یہ دنیا یہ محفل
اور فلم ارتھ کے گیت
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
نے انہیں برِصغیر کے نامور گیت کاروں کی صف میں بھی لاکھڑا کیا۔
کسی نے کیا اچھا کہا ہے کہ کہ کیفی کی شاعری کا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہے۔ دس مئی 2002ء کوعاشق مزاج کیفی اعظمی 84سال کی عمر میں ممبئی میں انتقال کر گئے،لیکن ان کی نظموں کا رومانس آج بھی قائم ہے۔