18 مارچ ، 2014
کراچی…ایک جانب کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف پولیس اور رینجرز کا آپریشن جاری ہے تو دوسری طرف ملزمان اپنی بھرپور کارروائیوں میں مصروف ہیں،صرف 3 ماہ کے دوران درجنوں افراد کو اغواء کرکے کروڑوں روپے تاوان وصول کیا جاچکا ہے۔قتل،بھتا اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں اپنی جگہ،لیکن اب کراچی کے شہری پریشان ہیں، اغواء برائے تاوان کی تیزی سے بڑھتی وارداتوں سے دن ہو یا رات مسلح افراد آتے ہیں اور ڈاکٹرز، صنعتکار یا صاحب حیثیت افراد یا ان کے اہل خانہ کو اغواء کرکے لے جاتے ہیں اور پتہ جب چلتا ہے، جب نامعلوم فون کالز کے ذریعے بھاری رقم بطور تاوان طلب کی جاتی ہے اور نہ دینے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔بے چارے شہری کریں تو کیا کریں، اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل میں 2 ماہ سے کوئی افسر تعینات نہیں ، جس کے باعث ادارے کے اہلکار آرام فرما نے کے ساتھ مفت کی تنخواہ وصول کررہے ہیں۔اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے ایک اہلکار نے جیو نیوز کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے پر اعدادوشمار کچھ اسطرح بتائے۔جنوری سے اب تک 32 افراد کو تاوان کی غرض سے اغواء کیا گیا،کچھ افراد کی تاوان کی ادائیگی کے بعد چھوڑدیے گئے،جبکہ 10 افراد اب بھی اغواء کاروں کے چنگل میں ہیں۔ ان میں 3 بچے، 3 ڈاکٹر اور 4 صنعت کار شامل ہیں۔ دوسری جانب پولیس اہلکار اغواء ہونے والوں کے اہل خانہ اوراغواء کاروں کے درمیان تاوان کی ادائیگی کے سلسلے میں رابطہ کار کا کام کررہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ ان افراد کی رہائی میں پولیس کا کردار صرف مذاکرات تک محدود رہتا ہے یا عملی طور پر کوئی اقدامات کیے جاتے ہیں تاکہ اغواء ہونے والوں کی باحفاظت واپسی ممکن ہوسکے۔