19 مارچ ، 2014
کراچی…افضل ندیم ڈوگر …صوبہ سندھ بدامنی اور کرپشن کا شکار تو ہے ہی لیکن اس دھرتی کا بڑا المیہ آب حیات جیسی نعمت سے محرومی ہے۔ تھر میں انسانوں کی حالیہ اموات اور معاشی بحران کی وجہ بھی پانی ہی ہے۔ ایسے میں سندھ سرکار کیا کررہی ہے؟سندھ کے حوالے سے ان تلخ حقائق سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ اس صوبے کا صرف 30 فیصد حصہ ملک کے آبپاشی کے نظام سے منسلک ہے اور صوفیا کی اس سرزمین کا لگ بھگ 70 فیصد رقبہ آب حیات جیسی اہم ضرورت سے محروم ہے۔ دھرتی کے اکثریتی علاقے جدید ترین دور میں بھی قدرتی وسائل کے مرہون منت ہیں۔ یعنی ان علاقوں میں ابررحمت برسے تو زندگی ہے، بارش میں میں جتنی تاخیر ہوجائے ان علاقوں سے زندگی اتنا ہی دور ہوتی جاتی ہے۔ تھر، نارا اور کاچھو ریجن کے علاقوں سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ صرف پانی ہے۔ یہاں کے لوگ میلوں پیدل چل کر پانی کی تلاش میں بھٹکتے نظر رہتے ہیں۔ پانی نہ ملے تو بھوک بڑھتی جاتی ہے۔ صحت تباہ ہونے سے یہاں کی حیات موسم کی سختیاں برداشت کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ ایسا ہی سب کچھ ایک ماہ قبل تھر میں ہوا۔ یعنی خشک سالی سے مختلف امراض کا شکار لگ بھگ ڈیڑھ سو شہری اموات کا شکار ہوئے۔ آب حیات دستیاب ہو تو یہ تھری خوش حال، ان کے جانور توانا اور کھیت باغ و بہار ہوتے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے تھر کے بیشتر علاقوں میں 120 آر او پلانٹ لگائے تھے۔ ان علاقوں کے باشندے گھر کی دہلیز پر پانی کی فراہمی کے بعد اب پرسکوں انداز میں تلاش روزگار میں مصروف ہیں۔ تھر کی حالیہ قحط سالی کا ان علاقوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان علاقوں کے باشندوں کی خوش حالی دیکھتے ہوئے موجود صوبائی حکومت نے ضلع تھرپارکر اور مٹھی کے ڈھائی ہزار گاوٴں اور گوٹھوں کیلئے سولر انرجی سے چلنے والے 643 ریورس اوس موسس پلانٹ لگانے کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ اس منصوبے کو اگر فوری طور پر حقیقت کا رنگ دے دیا جائے تو تھری عوام کی قسمت بدل سکتی ہے اور قحط، ڈکار یا بھوک تھریوں کی زندگی کا ماضی بن سکتی ہے۔