پاکستان
05 اپریل ، 2012

میمو کیس:فوج کی طرف سے بغاوت کا کوئی منصوبہ نہ تھا، احمد شجاع پاشا

میمو کیس:فوج کی طرف سے بغاوت کا کوئی منصوبہ نہ تھا، احمد شجاع پاشا

اسلام آباد… سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ احمد شجاع پاشا نے میمو کمیشن میں پیش ہوکر بتایا ہیکہ میموکا معاملہ صدر آصف زرداری کے علم میں بھی لایاگیا، صدر کو بتایاگیا کہ حسین حقانی ہی تمام حقیقت بتاسکتے ہیں ۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد فوج کی طرف سے بغاوت کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں تھا۔ میموکمیشن کا اجلاس جسٹس فائزعیسیٰ کی زیرصدارت اسلام آباد میں ہوا ، اس موقع پر اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق بھی موجودتھے،کمیشن نے آج حسین حقانی کو بیان قلم بند کرانے کیلئے بلارکھا تھا، انکے وکیل زاہدبخاری نے اپنے موکل کے امریکا میں عارضہ قلب کے علاج کا عذر پیش کیا ،اس پر کمیشن نے تنقیدی ریمارکس دئے اور کہاکہ عدالت اور کمیشن کے احکامات کی نافرمانی کی جارہی ہے،کشمیری رہنماء یاسین ملک کے بیان پر منصوراعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے جرح کی ، یاسین ملک نے کہاکہ وہ خود پر لگنے والے الزام کا جواب دینے کمیشن میں آئے ہیں، وہ کبھی بھارتی خفیہ والوں سے ملے ہوں تو اپنے 30 سالہ سیاسی کیرئیر سے دستبردار ہوجائیں گے، سابق آئی ایس آئی چیف احمد شجاع پاشا نے بیان قلم بند کرایا اور کہاکہ منصوراعجاز کے آرٹیکل کا پہلا پیرا پاکستان کی سکیورٹی کے بہت خلاف تھا،اس پر فوجی قیادت سے مشاورت کے بعد مزید تفصیل اکھٹا کرنے کا فیصلہ ہوا، 22 اکتوبر 2011ء کو لندن میں منصور سے 4 گھنٹوں کی ملاقات ہوئی، اس نے حسین حقانی سے بلیک بیری رابطوں کی تفصیل بتائی اور 35 پیغامات بھی دکھائے، احمد شجاع پاشا نے بتایاکہ انہوں واپس آکر آرمی چیف کو تفصیل بتائی، صدر سے ملاقات اگلے ماہ 18 نومبر کو ہوئی، اس میں میمو کے بارے بتایا اور کہاکہ معاملہ قومی سلامتی سے متعلق ہے، حسین حقانی ہی میمو کے الزامات کے بارے میں درست بتاسکتے ہیں، جنرل پاشا پر نوازشریف کے وکیل مصطفے رمدے، دیگر درخواست گزاروں کے وکیل صلاح الدین مینگل نے جرح کی ، اس میں احمد شجاع پاشا نے بتایاکہ صدر، وزیراعظم ، آرمی چیف اور انکی ملاقات ہوئی،اس میں حقانی کو بھی بلایاگیا ، احمد شجاع پاشا نے کہاکہ انہوں نے پھر یہ معاملہ فوجی اور سیاسی قیادت پر چھوڑ دیا، ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ انکی اطلاع کے مطابق حسین حقانی، ایوان صدر میں مقیم رہے،بعد میں میموکمیشن کی کارروائی میں نصف گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا، اس سے پہلے کمیشن نے ریمارکس میں کہاکہ جنرل پاشا ایک غیرجانبدار شخص ہیں،وہ کسی ایک فریق کی طرف نہیں ہیں۔ وقفہ کے بعد مقدمہ زاہد بخاری نے احمد شجاع پاشا پر جرح کی، سابق آئی ایس آئی چیف نے کہاکہ انہوں نے سپریم کورٹ میں جو بیان حلفی جمع کرایا وہ اسکی لفظ بہ لفظ تصدیق کرتے ہیں، منصور اعجاز سے ملنے کیلئے آرمی چیف سے تحریری اجازت نہیں لی تھی، منصور اعجاز کے مضامین پڑھ کر لگتاہے کہ وہ پاکستان ، اسکی فوج اور انٹیلی جنس کے بارے میں تنقیدی رویہ رکھتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہ احمد شجاع پاشا پر جرح نہیں کریں گے،بعد میں کمیشن نے کچھ سوالات کئے تو احمد شجاع پاشا نے کہاکہ وہ منصوراعجاز کی طرح حسین حقانی سے ملے نہ ہی حقانی نے انہیں فون سیٹ دکھایا، کمیشن نے کہاکہیہ عجیب بات ہے کہ آپ امریکی شہری سے تو ملے لیکن اپنے سفیر سے نہیں ملے، احمد شجاع پاشا نے کہاکہ حقانی کے فون سیٹ کا معاملہ کو سیاسی و عسکری قیادت پر چھوڑ دیا تھا، منصوراعجاز نے فوج کی طرف سے بغاوت کی جو بات کی وہ درست نہیں ، ایسا منصوبہ ہوتا تو آئی ایس آئی کو اسکا ضرور علم ہوتا، فوج اور سویلین حکومت میں اختلافات کا غلط تاثر پیدا کیا گیا ، عام آدمی ، بلیک بیری کا ڈیٹا ، ٹمپر نہیں کرسکتا، ٹمپرنگ ہو تو آئی ایس آئی اسکو معلوم کرسکتی ہے، آئی ایس آئی کا سیکشن ایس ، اسکا آپریشنل ونگ ہے ، جبکہ ادارے کے کل 8 ونگ ہیں ۔

مزید خبریں :