پاکستان
14 جون ، 2014

نواز شریف کی سپریم سویلین حکمرانی والاپاکستان بنانے کی کوششیں دم توڑ نے لگیں

کراچی…محمد رفیق مانگٹ..... برطانوی جریدہ’’اکنامسٹ‘‘ لکھتا ہے کہ نواز شریف کی سپریم سویلین حکمرانی والاپاکستان بنانے کی کوششیں دم توڑ نے لگیں، پاکستان کے سب سے مقبول ٹی وی چینل جیو کے مسئلے پر حکومت فوج کے سا منے بے بس ہوگئی، فوج نے جیو پر نشر بیانات کو اپنی توہین جانااور اس کا لائسنس معطل کرا دیا، فوج نے پرویز مشرف کے خلاف کیس میں قانونی فتح حاصل کر لی ہے، نوازشریف اور آرمی چیف کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے دشوار رہے ،تشویش کی بات ہے کہ کچھ حاصل کیے بغیر وزیر اعظم کو پریشان کردیا گیا، نواز شریف کو اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ مشرف کے معاملے پر یہ جنگ جاری رکھنی ہے یا ہتھیار پھینکنے ہیں، مشکل صورت حال یہ ہے کہ اگر وہ جنرلوں کے ساتھ جاتے ہیں تو ان کاا نجام بھی آصف علی زرداری سے مختلف نہیں ہوگا جنہوں نے اپنے اقتدار کے پانچ سال تو مکمل کیے مگر کچھ نہ کر پائے۔ دوسری طرف جیو ٹیلی وژن کے حالیہ تنازع سے یہ محاذ آرائی بڑے خطرات کی طرف جاتی ہے۔حامد میر فائرنگ واقعے کے بعد کی صورت میں فوج نے اپنے طریقوں سے جیو کے صحافیوں کو ہراساں کیا، جیو نے بدنام کرنے پر آئی ایس آئی کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کیا۔ اسکے تجارتی حریفوں نے توہین رسالت سے ریاست مخالف ہونے کے الزام عائد کیے۔چھ جو ن کو جیو کا لائسنس پندہ دن کے لئے معطل کردیا۔ چینل کو بند کرنے میں سات ہفتے کا وقت لگا ،جو ظاہر کرتا ہے کہ فوجی طاقت کتنی کم ہو چکی ہے لیکن اس صورت حال نے سویلین حکام کو بھی کافی نقصان پہنچایا۔ یہ نقصان کچھ سویلین رہنماؤں کے رویے کی وجہ سے ملا۔ فوج ماضی کے پس منظر میں سوچ رہی ہے ، پاکستان کے سیاسی رہنماؤں نے یہ سیکھ لیا کہ انہیں آمریت کے خلاف اکھٹے رہنا چاہیے۔نواز شریف ایسی ترغیبات میں نہیں آئے کہ زرداری کی حکومت کو گرا دیا جائے اور آج زرداری بھی کسی کے جال میں نہیں آرہے اور نواز شریف کے لئے مشکلات پیدا نہیں کر رہےلیکن عمران خان اس طرح کی گیم نہیں کر رہے، وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف نے انتخابات چرایا ہے لہٰذا وہ حکومت گرانا چاہتے ہیں۔ جریدہ لکھتا ہے کہ عام انتخابات میں جب نواز شریف اپنی کامیابی کا جشن منارہے تھے تو وہ ایسے طاقتور شخص دکھائی دے رہے تھے جو فوج کو اپنے مقام میں رکھیں گے ۔پاک فوج جس نے ملکی تا ریخ میں نصف سے زیادہ حکومت کی ہے ،خارجہ پالیسی اور دفاعی پالیسی پر ان کا کنٹرول رہا ہے لیکن نواز شریف کو جوفائدہ حاصل رہا وہ ماضی کے کسی بھی حکمران کو نہیں رہا جن میں بھرپور پارلیمانی اکثریت، ایک آزاد خیال میڈیا اور ایسی حزب اختلاف جو آمریت اور فوجی بغاوت کو قائل کرنے کے قابل نہیں۔ وزیر اعظم کی طالبان کے ساتھ بات چیت کی کوششوں سے فوج کو پیچھے ہٹنا پڑا۔حالیہ ہفتے پاکستانی طالبان نے ائیر پورٹ پر حملہ کرکے ہوائی جہاز کواغوا یا تباہ کرنے کی خوش قسمتی سے ناکام کوشش کی، اس سے یاد دہانی ہو گئی کہ طالبان گروپ کے ساتھ کوئی معاہدہ پانامشکل ہے۔گزشتہ جون انہوں نے سابق آرمی چیف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اہم فیصلہ لیا۔اگر جنرل مشرف مجرم ٹھہرتا ہے تو فوج کو حاصل استثناء کے کلچر کے خاتمے کی طرف اہم قدم ہوگا۔جزوی طور پر یہ خیال کیا گیا کہ خصوصی عدالت کی طرف سے مشرف پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد انہیں ملک سے جانے دیا جائے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ حکومت نے ان کے غیر ملکی سفر پر پابندی عائد کردی اور ان پر مقدمہ آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ اب سندھ ہائی کورٹ نے ان کا نام ایگزٹ لسٹ سے نکالنے کا حکم دیا جس سے ان کے ملک سے جانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل کرسکتی ہےلیکن اس فیصلے نے مشرف کی قسمت کے بارے میں حکومت کے مقابلے میں فوج کی مدد کی ۔نواز شریف کا سیاسی مسئلہ یہ ہے ان کی طالبان کے ساتھ نرمی سے نمٹنے کی پالیسی کو جنرلوں نے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔فوج نے شمالی وزیر ستان میں جوابی حملوں میں تیزی پیدا کردی ہے۔ایسے کریک ڈاؤن نواز شریف کے لئے سیاسی خطرات لیے ہیں جس سے امن بات چیت دھندلاہٹ کا شکار ہیں۔جریدہ لکھتا ہے کہ جب پاکستان کو اسٹریٹجک لحاظ سے اہم فیصلے کرنے ہیں تویہ ساری صور ت حال کا مقصد وزیر اعظم کو کمزور کرنا ہے اور حکومت اور فوج کے تعلقات کو بگاڑنا ہے ۔بھارت میں قوم پرست جماعت کی حکومت ہے۔ جہاں توانائی ،تجارت اور ویزہ پر بات چیت میں پیش رفت ہو نے کا امکان ہے۔ افغانستان کا جلد ہی نیا صدر ہوگا جسے نیٹو کے بغیر رہنا ہوگا،نوازشریف اپنے دونوں ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔

مزید خبریں :