08 اگست ، 2014
کراچی...... الیکشن ہوتےہی گوشہ نشین ہونے والے فخرالدین جی ابراہیم بول پڑے ہیں، سابق چیف الیکشن کمشنر نے انتخابات پر اعتراضات کا جواب دے دیا. انہوں نے واضح کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے انتخابات کے حوالے سے ان پر کوئی دباؤ نہيں ڈالا ، سینئر صحافی مظہر عباس کو تفصیلی انٹرویو میں انہوں نے سیاسی رہنماؤں سے صبرو تحمل کی اپیل کی اور کہا کہ وہ جمہوریت کو ڈی ریل نہ ہونے دیں ۔فخرالدین جی ابراہیم نے چپ کا روزہ توڑ دیا ہےاور گذشتہ انتخابات پر عمران خان کے اعتراضات کا جواب دے دیا ، الیکشن دو ہزار تیرہ میں جن پر عمران خان کو شدید تحفظات ہیں فخرالدین جی ابراہیم چیف الیکشن کمشنر تھے ، جو آئینی طریقہ کار کےتحت اپوزيش اور حکومتی مشاورت سے بنے تھے ، اس میں اس وقت کی تمام اسٹیک ہولڈر سیاسی جماعتوں کی مشاورت کسی نہ کسی حد تک ضرور شامل تھی ،سینئر صحافی مظہر عباس کو انٹرویو میں فخرالدین جی ابراہیم نے کہاکہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے انتخابات کے حوالے سے ان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا ، سوائے کراچی میں ووٹرز کی تصدیق کے ، جو کہ الیکشن کمیشن کے محدود وسائل کےباعث ممکن نہیں تھا ، فخرالدین جی ابراہیم نے کہاکہ ان کے چیف الیکشن کمشنر بننے کے بعد عمران خان سے ان کی دو تین ملاقاتیں ہوئيں، فخرالدین جی ابراہیم کاکہناتھاکہ انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ہر پولنگ اسٹیشن پر ایک آرمی افسر تعینات کرنےکی اپیل کی تھی جس پر جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ شاید یہ ممکن نہیں ۔جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کا کہنا تھا کہ 2013 کے انتخابات میں تین ایسی چیزیں تھیں، اگر وہ ہو جاتیں تو بہت اچھا ہوتا۔ پہلا یہ کہ پورے انتخابی عمل میں آرمی کا معاونتی کردار، بڑا ہونا چاہیئے تھا۔ دوسرا یہ کہ انتخابات مرحلہ وار ہونے چاہیئے تھے۔اور تیسرا یہ کہ حاضر سروس ججوں کو الیکشن ٹریبونل میں تعینات اور فیصلے 120 دن کے اندر دیے جانے چاہئے تھے۔فخرالدین جی ابراہیم نے سیاسی قیادت کو مشورہ دیا کہ وہ صبر و تحمل سے کام لینے اور جمہوریت کو پٹڑی سے نہ اترنے دیں۔نئے الیکشن کمیشن اور انتخابی اصلاحات کے بارے میں تجویز دیتے ہوئے فخرو بھائی نے کہا کہ (1) کسی حاضر سروس بیوروکریٹ کو الیکشن کمیشن میں ہونا چاہئے (2) ووٹ ڈالنے کو لازمی قرار دیا جائے (3) الیکشن کمیشن کے ممبران کا تعلق عدلیہ سے نہیں ہونا چاہئے تاہم انہیں انتظامی معاملات کا تجربہ ہونا چاہئے اور وہ اچھی شہرت کے حامل ہوں (4) افرادی قوت اور وسائل کے پیش نظر بھارت کی طرح پاکستان میں بھی انتخابات مرحلہ وار ہونے چاہیں (5) الیکشن کمیشن کی بیورکریٹک تنظیم کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔