24 اپریل ، 2012
اسلام آباد… وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کیخلاف توہین عدالت کیس کے استغاثہ، اٹارنی جنرل عرفان قادر نے ، سپریم کورٹ کے اس مقدمہ کے قانونی جواز اور این آر او کالعدم قرار دینے کے حکم پر سوالات اٹھادیئے ہیں، ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ این آر او فیصلے کے کئی دیگر نکات پر عمل نہیں ہوا ، اور حکومت نے اس حوالے سے جھوٹ بولا۔ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ نے وزیراعظم کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل نے بطور استغاثہ ، دلائل دئے،انکاکہناتھاکہ اقوام متحدہ ضابطہ کے مطابق استغاثہ بننے والا ، عدلیہ سے مکمل الگ ہوجاتا ہے، اس کیس میں استغاثہ نے عدلیہ اور وزیراعظم کے درمیان تنی ہوئی رسی پر چلنا ہے، انہوں نے کہاکہ اس وقت ملک میں توہین عدالت کا کوئی قانون نہیں ہے، عدالت کی ایک رولنگ سے امتناع توہین عدالت کے 2003ء کے آرڈیننس کو رائج کیا گیا، جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے اس قانون کو نافذ قرار دیا ، 2003ء کے آرڈیننس کو آرٹیکل 270 اے کے تحت تحفظ حاصل ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ جب آرٹیکل 270اے منظور ہوا تو 2003ء کا آرڈیننس منسوخ ہوچکا تھا، معاملے کو لارجر بنچ کو بھجوا دیاجائے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت نے این آر او کیخلاف عمل درآمد کیلئے 3 سو صفاتی فیصلے کے صرف چند پیرا گراف لئے ،جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ حکومت کا کہنا ہے کہ صرف ایک پیراکے سو سب پر عمل ہوچکا ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت نے جھوٹ بولا ہے، میں بتاوٴں گا کہ کہاں کہاں عمل نہیں ہوا، عدالت نے خود این آر او کو 2 سال تک زندہ رکھا، جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہاین آر او نظرثانی درخواست پر فیصلے میں معاملہ حتمی طور پر طے شدہ ہے؛ اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالتی کارروائی نے یہ معاملہ پھر کھول دیا ہے، عدلیہ تحمل کا مظاہرہ کرکے تمام اداروں کو بچائے، عدالت نے پوچھا کہ حکومت سوئس حکام کو حکومت خط کیوں نہیں لکھتی تو اٹارنی جنرل نے کہاکہ معاملہ جذباتی طور پر نہ لیں، بعد میں سماعت میں وقفہ کردیاگیا۔