13 دسمبر ، 2014
ڈیرہ اسماعیل خان .....ملک میں جاری سیاسی ،سماجی ، معاشی اور بے امنی کی صورتحال میں ذہنی اور نفسیاتی امراض میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے ۔جبکہ ایسے نفسیاتی مریضوں کی بحالی کے ادارے ناپید ہیں ۔پا کستا ن کے ہر چھو ٹے بڑے شہر اور گا ؤں میں ایک نہیں کئی ایسے ذہنی مریض ضرور ہو تے ہیں، جنہیں حکو مت ،عوام اور اس کے اپنے، پا گل قرار دیکر معا شرے میں چھوڑ دیتے ہیں ،یہ لوگ بھوک سے تو نہیں مرتے تا ہم سردی گرمی اور معاشرے کی مجمو عی بے رحمی سے اپنی مو ت آپ ضرور مر جا تے ہیں ۔ماہر نفسیات ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا ہے کہ کوئی ہمارے پاس سوشل ادارے نہیں ہیں جہاں پر یہ لوگ قیام کر سکیں اور ان کا بروقت علاج ہو سکے ۔تو یہ لوگ معاشرے میں ہر جگہ پر گلیوں آوار ہ پھرنے لگ جاتے ہیں ۔ ان کو جو علاج چاہیے بنیادی طور تو ایک اچھے معاشرے میں وہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہیں ۔ گھر ہے نہ گھا ٹ، نہ بھیک ما نگنے والے ہا تھ ،کوئی مطا لبہ نہ کسی خوا ہش کا اظہار، ذاتی صفا ئی ستھرا ئی ، نہ با لو ں کی ترا ش خراش،نہ ہی کھا نے پینے کی تمیز، بھوک لگنے پر کچھ بھی اور کہیں کابھی ،کچراتو پھر اپنا ہی ہے ۔دنیا ڈا لفن اورگدھ کی نسلوں کو درپیش خطرات کے خاتمے،جا نوروں اور پرندوں میں پا ئی جا نے والی مختلف بیما ریوں پر ریسرچ اور روک تھا م کا کام کر رہی ہے، جبکہ ہما رے صو بہ خیبر پختو نخوا ہ میں ایسے قا بل علا ج انسانوں کے لئے جیلیں ہر شہر میں مگر ہسپتا ل صرف پشاور میں ۔ ان کا مزید کہناتھا کہ پو رے صوبے میں صرف ایک جگہ ہے جہاں شدید ذہنی بیما ریوں کے مر یض داخل کئے جا سکتے ہیں اور وہ ادارہ بھی قیا م پا کستان کے وقت سے پہلے قا ئم ہے جبکہ آبدی آپ دیکھیں کے کتنی بڑھ گئی ہے ۔ کسی کے تو یہ بھی ہو تے ہیں،مگر ان کا کون ہو تا ہے ؟انہیں مو ٹر وے چا ہیے نہ میٹرو،روٹی کپڑا اور مکان نہ آزادی اور انقلا ب ، بس ایک جو سہا را بنے اور مداوا کرے ۔۔۔۔
۔بقول فیض ۔ ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا ۔۔ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے ۔