پاکستان
15 جنوری ، 2015

مقدمات کے اندراج میں تاخیر اور جھوٹے مقدمات کی تفصیلات طلب

مقدمات کے اندراج میں تاخیر اور جھوٹے مقدمات کی تفصیلات طلب

اسلام آباد..........سپریم کورٹ نے چاروں صوبائی حکومتوں سے پولیس کی جانب سے مقدمات کے اندراج میں تاخیر اور جھوٹے مقدمات پر کارروائی کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نےریمارکس دیے کہ گناہ گاروں کو عدالتوں سے سزائیں دلوانا سرکار کی آئینی ذمہ داری ہے، اگر سرکار اپنی ذمہ داری اداکرنے میں ناکام ہوگئی ہے توعوام کے سامنے اپنی نا اہلیت کا اعتراف بھی کر لے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس آصف سعید کھو سہ کی سربراہی میں دو مختلف بنچوں میں عدالتوں کی کار کردگی سےمتعلق وزیر اعظم کے اخبارات میں شائع ہونے والے بیان پرجسٹس جواد خواجہ، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کا ردعمل سامنے آیا۔ غلط ایف آئی آر کے اندارج کو کالعدم قرار دینے کے مقدمے میں جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ انصاف دینے کی عدالتیں ہیں، سزائیں دینے کی نہیں، تفتیش اور استغاثہ کی خرابیوں کو دور کرنا اور قوانین میں سقم دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اگر حکومت اپنا کام نہیں کر سکتی اور سمجھتی ہے کہ یہ کام بھی عدلیہ کرے تو پھر آئین میں ترمیم کر کے عدلیہ کو یہ اختیار بھی دے دیا جائے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ریاست کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے یہ تو کہہ دیا کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار مقدمات زیر التوا ہیں، عدالتوں میں فیصلے نہیں ہوتے لیکن یہ نہیں کہا کہ یہ نا اہلی کس کی ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر ایک گونگی بہری لڑکی سے اجتماعی زیادتی کے ملزمان کی بریت کا فیصلہ پولیس کرے تو بتایا جائے یہ کس کی ناکامی ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ پنجاب میں ایک سال کے اندر ایک لاکھ 40ہزار مقدمات میں سے 60ہزار پہلی ہی سماعت پر خارج ہو جائیں تو بتائیں کہ ناہلی کس کی ہے؟؟ کیا چیف سیکرٹری نے ناقص چالان پیش کر نے پرکسی اہلکار کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے؟؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اخبارات میں شہہ سرخیاں آئی ہیں کہ مقدمے زیر التوا ہیں، فیصلے نہیں ہوتے یہ بھی بتا دیتے کہ ایف آئی آر کے اندارج سے لے کر تفتیش، چالان پیش کرنے اور استغاثہ کی ذمہ داری تو خود حکومت کی ہے، یہ سب کام وقت پر اور درست طریقے سے ہو تو عدالتوں کاکام حقائق دیکھ کر فیصلے کرنا ہے، ٹھوس ثبوت ہو تو ملزم سزا سے کیسے بچ سکتا ہے، سزا کے لیے مواد لانا حکومت کا کام ہے۔ عدالت نے تفتیش نہیں کرنی ۔فاضل جج کا کہنا تھا کہ 2013ء میں پولیس کی طرف سے جمع کردہ چالان میں 64 فیصد مقدمات ٹرائل کی سطح پر خار ج ہوئے اور باقی 20فیصد اعلیٰ عدلیہ نے نامکمل چالان اور ناقص تفتیش پر خارج کیے۔ مقدمات خانہ پری کرنے کے لیے جج کے سامنے رکھ دیے جاتے ہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ ہماری تشویش ہے کہ حکومت کے پاس اختیار بھی ہے اور وسائل بھی، پھر ان خامیوں کو کیوں دور نہیں کیا جاتا ساری ذمہ داری عدالتوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ جیل اصلاحات کے ازخود نوٹس کیس میں جسٹس آسف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ کہ عدلیہ اپنی استعداد سے بڑھ کر کارکردگی دکھا رہی ہے، کارکردگی بہتر بنانے سے متعلق بیان پڑھ کر دکھ ہوا، ملک میں 17لاکھ مقدمات زیر التواءہیں اور صرف 2400جج ہیں، جب ججوں کی خالی اسامیاں مکمل کرنے کیلئے کہا جاتاہے تو فنڈ اور اسٹاف نہ ہونے کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔

مزید خبریں :