19 جون ، 2015
کراچی.........ایگزیکٹ کا فراڈ سامنے آنے کے بعد ایگزیکٹ نے الزامات کا سامنا کرنے کے بجائے معاملے کو میڈیا والوں کی سازش قرار دیا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر پاکستانی براڈکاسٹرز کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن نے ایگزیکٹ اور بول سے متعلق کچھ حقائق سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی بی اے نے حکومت، پیمرا، عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میڈیا تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ یہ بات یقینی بنائیں کہ کوئی شخص کالا دھن استعمال کر کے میڈیا میں جگہ نہ بنا سکے۔ 18مئی 2015ء کو امریکا کے مؤقر روزنامے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی اس خبر نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا کہ ایگزیکٹ نامی کمپنی دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں فروخت کرنے والا سب سے بڑا کارخانہ ہے۔ امریکی ایف بی آئی سمیت بین الاقوامی ادارے بھی اس فراڈ کی تفتیش کر رہے ہیں۔ ایگزیکٹ کی جعلی ڈگریوں پر امریکی وزیرخارجہ جان کیری اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے دستخط بھی نکلے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار کی ہدایت پر ایف آئی اے نے فوری کارروائی شروع کی، ایگزیکٹ کے دفاتر اور احاطے میں چھاپہ مار کر ایک لاکھ جعلی ڈگریاں، جعلی مہریں، جعلی چھاپہ خانے قبضے میں لے لیے گئے۔ دنیا کے سب سے بڑے جعلی ڈگری فراڈ کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹ کا معاملہ پاکستان کا سب سے بڑا منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری اسکینڈل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی سافٹ وئر ایسوسی ایشن پاشا نے ایگزیکٹ کو اپنی تنظیم کا رکن نہیں بنایا جبکہ آئی ٹی کے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عطاء الرحمان نے بھی کمپنی کو فراڈ قرار دیا ہے۔ جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ملوث کمپنی ایگزیکٹ اپنا کالا دھن بول نامی ایک نیوز چینل میں لگا رہی تھی۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق بول کے ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں کا بل 36کروڑ روپے تک پہنچ چکا تھا،حالانکہ سیکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن کے مطابق ایگزیکٹ کی آمدنی 20کروڑ سے کم تھی۔ایگزیکٹ کی 99اعشاریہ 9 فی صد ملکیت ایک غیر ملکی کمپنی کے پاس تھی، حالانکہ کوئی غیر ملکی پاکستان کی کسی میڈیا کمپنی کا مالک نہیں ہو سکتا۔ ایگزیکٹ نے اپنے نیوز چینل کے لیے نہ آئی ایس آئی سے سیکیورٹی کلیئرنس لی اور نہ بیرون ملک سے سامان منگوانے کے لیے پیمرا سے این او سی لیا، لیکن اس نیوز چینل میں جانے والوں نے یہ حقائق نظر انداز کر دیے۔ صحافیوں کا بنیادی کام ہی سوال کرنا ہوتا ہے، مگر بول میں جانے والے صحافی یہ نہ پوچھ سکے کہ ایگزیکٹ کی پراڈکٹس کیا ہیں؟ اس کے کلائنٹس کون ہیں؟ کسی ایک ویب سائٹ، کسی ایک موبائل ایپلی کیشن، کسی ایک سافٹ وئر کا نام کسی کو کیوں نہیں معلوم جسے ایگزیکٹ نے بنایا ہو۔ دنیا کے بڑے بڑے اداروں کو فراہم نہ کی جا سکنے والی سہولتوں کے لیے پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ کیا یہ پیسہ کالے دھن کا تو نہیں؟ بول کے کچھ صحافی مظاہروں میں مصروف ہیں۔ لیکن صحافیوں کی اکثریت جو بول ٹی وی سے منسلک نہیں، ان صحافیوں سے پوچھتی ہے کہ آپ صحافت کے لیے لڑ رہے ہیں یا اپنی بڑی بڑی تنخواہیں برقرار رکھنے کے لیے اور آپ کو یہ بھی پرواہ نہیں کہ یہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔ پی بی اے کے مطابق ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شعیب شیخ میڈیا میں آ کر اپنے مشکوک ماضی اور اپنے مشتبہ سرمائے پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ میڈیا کو لازماً یہ سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ وہ میڈیا کو کسی بھی غیر قانونی معاملے پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ انسانی ہمدردی کے تحت پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن نے اپنے تمام ارکان سے درخواست کی ہے کہ وہ ان صحافیوں اور پیشہ ور افراد کو نوکریاں دینے میں بھرپور تعاون کریں جنہوں نے بول سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ پی بی اے کے رکن ادارے اس مقصد کے تحت اب تک بول کے سو سے زیادہ صحافیوں اور پیشہ ور افراد کو ملازمتوں کی پیش کش کر چکے ہیں۔ پی بی اے کے مطابق ایگزیکٹ کا بول قانونی تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر قانونی تقاضے پورے کیے جائیں تو پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی بول سمیت ہر چینل کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے تیار ہے۔حکومت، پیمرا، عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور میڈیا تنظیمیں یہ بات یقینی بنائیں کہ کوئی شخص کالا دھن استعمال کر کے میڈیا میں جگہ نہ بنا سکے۔ یہ بات بھی یقینی بنائی جائے کہ کسی میڈیا کمپنی میں استعمال ہونے والا پیسہ منشیات فروشی، جعلی ڈگریوں، زمینوں پر ناجائز قبضے، کسی منفی سیاسی ایجنڈے، کسی بیرونی قوت کے ایما یا جرائم پیشہ عناصر کے ذریعے حاصل نہیں کیا گیا۔