16 مئی ، 2012
کراچی…محمد رفیق مانگٹ…امریکی اخبار کے مطابق افغانستان میں امریکی کمانڈر چاہتے ہیں کہ جنگی سازوسامان کی فراہمی دوبارہ پاکستان سے شروع ہوجب کہ پاکستان میں بھی ہر سطح کے افراد نیٹو سپلائی کی بحالی کے انتظار میں ہیں، سرکاری حکام اپنے بجٹ میں توازن کی کوشش میں جب کہ بلیک مارکیٹرز نیٹو کے ٹرکوں اور آئل کنٹینرز سے اشیاء چرانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ نیٹو سپلائی کی بحالی پرابھی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا لیکن پاکستانی حکام نیٹو سپلائی کی اجازت کے فیصلے کا اعلان آج کرنے جا رہے ہیں۔ کئی ماہ کی سیاسی گفت وشنید اور مذاکرات کے بعد واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی میں کمی کا امکان ہے۔ از سر نو تعلقات کے بعد پاکستان اس تعاون کا بہت زیادہ ٹیرف وصول کرے گا۔ عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں اتحادی ہونے کی وجہ سے پاکستان ’کولیشن اسپورٹ فنڈ‘ کے 1.3 ارب ڈالر حاصل کرے گا۔دونوں اطراف کے حکام کا کہنا ہے کہ معاہدے میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی پاکستان سے مکمل امریکی معافی کا تذکرہ نہیں۔اخبار نے پشاور کے مضافات میں چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی پر اُن میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اخبار نے پاکستانی وزارت خزانہ کے حکام کے حوالے سے بتایا کہ میکرو اکنامک سطح پر بھی اسلام آباد کو مالی مدد کی بہت ضرورت ہے۔ مجوزہ بجٹ میں 1.3 ارب ڈالر کو شامل کیا گیا ہے۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق نیٹو سپلائی کی بحالی سے فائدہ اٹھانے والوں میں پاکستانی فوج بھی ہے۔مقامی ٹرانسپورٹر ایسوسی ایشن کے حوالے سے اخبار نے بتایا کہ 30فی صد نیٹوآئل ٹینکرز پر بلواسطہ فوج کا کنٹرول ہے،تاہم فوج نے سپلائی بزنس میں اپنے حصے کے بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔اخبار نے لکھا کہ قبائلی علاقے کے عسکریت پسند بھی نیٹو سپلائی سے منافع حاصل کرتے ہیں۔وہ کمپنیوں سے اُن کے مال کے تحفظ کی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔وہ اپنے حصے کی وصولی نہ ملنے کی صورت میں ٹینکروں پرحملے شروع کردیتے ہیں۔نیٹو سپلائی سے طالبان بھی مستفید ہوتے ہیں وہ کنٹینروں پر حملہ کر کے ہتھیار اور گولہ بارود چھینتے ہیں۔اخبار نے لکھا کہ پولیس اور دیگر مقامی حکام کو بھی کنیٹنرز کو گزارنے کی اجازت پر رشوت دی جاتی ہے۔اخبار نے لکھا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن میں مبصرین نے کبھی توقع نہیں کی کہ ڈرونز حملے کبھی بند ہوں گے۔ سلالہ چیک پوسٹ پرامریکا 15اپریل سے قبل پاکستان سے باضابطہ معافی مانگنا چاہتا تھا۔لیکن کابل حملوں کے بعد امریکی حکام نے اِس معافی کے امکان کو مسترد کردیا۔اخبار نے لکھا کہ واشنگٹن کو پاکستان کے فوجی انٹیلی جنس نظام پر انتہائی بد اعتمادی ہے لیکن اس کے باوجود طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے ساتھ کسی معاہدے میں پاکستانی شمولیت کو امریکا اہم ترین سمجھتا ہے۔اخبار نے پشاور کے ایک مقامی کسان کے حوالے سے لکھا کہ نیٹو سپلائی سے ہتھیاروں،اسلحہ ا ور بارود کی قیمتیں کم ہو جائیں گی۔پشاور میں26نومبر2011کے بعد امریکی اور یورپی پستول کی قیمت دگنی ہو گئیں ۔