25 اکتوبر ، 2015
کراچی.......بھارتی انتہا پسند تنظیمیں اور میڈیا بھلے کتنا ہی زہر اُگلیں، پاکستانی عوام اور میڈیا انسان دوستی کی روایت پر قائم ہیں، جیو کی تین سالہ کوششوں کی بدولت گیتا اپنے دیس جانے والی ہے، پاکستان میں آج اُس کا آخری دن ہے۔
انسان ٹوٹ اور اُکھڑ کر کہیں چلا جائے، مگر جس مٹی میں اُس کی جڑیں ہوں، وہ اُسے کھینچ کھانچ کر واپس بُلا ہی لیتی ہے، پندرہ سال سے پاکستان میں موجود گیتا کو بھی مٹی کا بُلاوا آگیا،اپنوں میں جانے اور جدائی کی لمبی داستان سنانے کی تڑپ، اس کی آنکھوں سے بہہ رہی ہے۔
ایک ایک پل گیتا کے لئے بہت بھاری ہے، وقت ہے کہ گذر ہی نہیں رہا،گیتا نے ہمیں ایدھی فیملی سے ملنے والے بہت سے تحائف بھی دکھائے، سونے کے ہار پر گیتا کا نام لکھا ہے، سرخ رنگ کا حسین چولا بھی ہے، بہن اور ابو کے لئے گھڑیاں بھی۔
گیتا کو اس آشیانے کے باسیوں سے بہت پیار بھی ہے اور لگائو بھی،محبت سے جڑے ان رشتوں میں ایک رشتہ ماں کا بھی ہے۔ گیتا کی سہیلی کہتی ہے کہ میں کسی اور سے بات کروں تو گیتا ناراض ہوجاتی ہے۔
گیتا کی خوشی میں سب خوش ہیں کہ پڑوسی ملک کی چڑیا اب اپنے گھونسلے میں پہنچنے والی ہے۔انتظار کی گھڑیاں اب ختم ہونے کو ہیں،اپنوں سے ملنے کی خوشی گیتا کے چہرے پر مسکراہٹ بن کر بکھر رہی ہے،لیکن اس آشیانے سے بھی گیتا کی کئی حسین یادیں وابستہ ہیں، اس لئے تو گیتا کہتی ہے کہ یہاں بنے پیار کے رشتے اسے بھارت میں بہت یادآئیں گے۔