30 نومبر ، 2015
پیرس .......پیرس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نواز شریف اور نریندر مودی ملے تو مصافحہ ہوا، مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا، بے تکلفی سے ایک صوفے پر بیٹھ کر گفتگو کی۔
سفارتی ذرائع کہتے ہیں نریندر مودی ملاقات کے خواہش مند تھے اور انہوں نے بہتر تعلقات کی خواہش ظاہر کی۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان پُرامن ہمسائیگی چاہتا ہے۔
پاکستان سے بہتر تعلقات کی اہمیت کا اندازہ لگانے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو 6ماہ کا وقت لگ گیا۔
جولائی 2015ءکے بعد پیرس میں ماحولیاتی تبدیلی کی کانفرنس کے موقع پر ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم آمنے سامنے آئے تو نریندر مودی نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا،تو نواز شریف نے بھی جواب گرم جوشی سے دیا۔
کانفرنس کے دوران ایک وقفہ آیا تو بھارتی وزیراعظم مودی نے ہال وے کے کاریڈور میں وزیراعظم نواز شریف سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ مصافحے کے بعد دونوں رہ نما قریب ہی ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔
چند منٹوں کی اس غیررسمی بیٹھک میں جہاں نریندر مودی اپنا مؤقف پیش کرتے نظر آئے، تو وزیر اعظم نواز شریف نے بھی انتہائی پراعتماد انداز میں جواب دیا اور پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پاکستان کا مؤقف واضح انداز میں مودی کے سامنے رکھا۔
اب سفارتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے اس غیر رسی ملاقات کی خواہاں خود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی تھے، ایک ایسی ملاقات جس میں وہ دونوں ملکوں کے رشتوں کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کرسکیں۔
وزیر اعظم پاکستان نے نریندر مودی کی بات سنی تو انہوں نے جواب دیا ،اسلام آباد نئی دہلی سے پرامن ہمسائیگی چاہتا ہے لیکن کچھ معاملات پر اصولی مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا، دونوں ملکوں میں بات چیت کا سلسلہ تو کم سے کم چلتے رہنا چاہیے،پاکستان نے ہمیشہ بھارت سے بہتر تعلقات رکھنا چاہے ہیں، لیکن عزت اور وقار پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
پیرس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کے کانفرنس کے دوران پاک بھارت تعلقات کے ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش بھی سامنے آئی۔
مودی نے بات چیت کا آغاز کیا اور اس دوران وزیراعظم نواز شریف کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے رہے۔
دونوں کے درمیان بات چیت کی آواز تو نہیں آئی لیکن لگتا ایسا ہے کہ مودی دھیمے اور عاجزانہ انداز سے کچھ گزارشات پیش کررہے ہیں، دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف بڑے وقار کے ساتھ چہرا مودی کے رخ سے ہٹائے سامنے دیکھ رہے ہیں لیکن ان کے کان پوری طرح مودی کی طرف متوجہ ہیں۔
تقریباً دو منٹ کی اس بات چیت میں نواز شریف نے اپنی کم کہی اور مودی کی زیادہ سنی، ملاقات کی فوٹیج بھارتی وزارت اطلاعات نے جاری کی ہے۔ کانفرنس سے واپسی پر مودی نے وزیراعظم سے ایک بار پھر گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔
سفارتی حلقوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ ملاقات میں گرم جوشی نظر آئی ہے، لیکن دوسری جانب بھارت کے اندر انتہا پسند لابی دونوں ملکوں کے تعلقات بگاڑنے کے لیے اب بھی کوشاں ہے۔ کرکٹ جیسے کھیل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں اور آج بھارتی دفتر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کلکتہ، دہلی اور میرٹھ سے تین پاکستانی جاسوس گرفتار کر لیے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس دعوے کا مقصد نواز مودی ملاقات سے پہلے پاکستان پر دباو‘ ڈالنا ہو سکتا ہے۔
پاکستانی وزیراعظم نے چند روز پہلے ہی کہا تھا کہ اگر بھارت کوئی پیشگی شرط نہ لگائے تو پاکستان اس سے مذاکرات کے لیے تیار ہے، اس اعلان کے بعد آج نواز مودی ملاقات سے کیا دونوں ملکوں کے درمیان برف پگھل سکے گی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اگلے کچھ روز میں سامنے آ سکتا ہے؟ ادھر بھارتی دفتر خارجہ کا نیا الزام ہے۔کیا اس ملاقات سے برف پگھل جائے گی؟
دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی ملاقات ایسے موقع پر ہوئی جب 8اور 9دسمبر کو ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو مدعو کیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کشمیری قیادت سے ملاقات کو بہانہ بنا کر دوطرفہ مذاکرات سے پیچھے ہٹنے اور ریاستی انتخابات میں ماحول خراب کرنے کے بعد اب بھارت کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ آگے بڑھے اور پاکستان کے امن عمل کا مثبت جواب دے کر ذمہ دار ملک ہونے کا ثبوت دے۔