05 دسمبر ، 2015
اسلام آباد.......عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ حکومت پاکستان کی مدعیت میں درج کر لیا گیا ، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ، پاکستان میں گرفتار ملزمان اور دیگر کے خلاف قتل ، پاکستان کے خلاف سازش اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔پاکستانی حکام کہتے ہیں تحقیقات مشترکہ تھیں، برطانوی پولیس نے ریڈ وارنٹس جاری نہیں کیے تو مقدمہ درج کرنا پڑا۔
سازش تیار ہوئی پاکستان میں قتل کیا گیا لندن میںاورتین ملزمان گرفتار ہیں پاکستان میں۔اسکاٹ لینڈ یارڈ کی پراسرار خاموشی کے بعد اب عمران فاروق قتل کیس میں ایک اہم ترین موڑ آ گیا ہے۔پاکستان نے عمران فاروق کےقتل کا مقدمہ اسلام آباد میں درج کر لیا ۔ نامزد ملزمان میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، انور علی، 3 گرفتار ملزمان معظم علی، خالد شمیم ، محسن اور دیگر شامل ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق مقدمے سے متعلق حکومت پاکستان اس وقت سے غور کر رہی تھی جب برطانوی پولیس نے ملزمان خالد شمیم ، معظم علی اور محسن کے ریڈ وارنٹس غیر معمولی طور پر جاری نہیں کئے۔پاکستانی ذرائع کے مطابق جب اسکاٹ لینڈ یارڈ کو تینوں ملزمان تک رسائی دی گئی تو یہ طے تھا کہ چوں کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ملزمان کی حوالگی کے دو طرفہ معاہدہ نہیں اس لیے پاکستان ریڈ وارنٹس کے ذریعے گرفتار ملزمان کو برطانیہ کے حوالے کرے گا، مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں ہو سکا۔
حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ تحقیقات مشترکہ تھیں اورگرفتار ملزمان کے بیانات ایف آئی اے نے بھی ریکارڈ کئے اس لیے مقدمہ پاکستان میں سی آر پی سی کی سیکشن تین اور چار کے تحت درج کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق قتل کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی اور اس میں ملوث 3 لوگ پاکستانی ہیں اس لیے مقدمہ بھی پاکستان میں درج کیا گیا۔مقدمے میں دفعہ 120 بی بھی لگائی گئی ہے جس کا مطلب وفاق پاکستان کے خلاف سازش ہے۔
اگلے مرحلے میں تینوں ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کر کے جسمانی ریمانڈ لے کر باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کیا جائےگا۔ گرفتار ملزمان کےبیان حلفی کی روشنی میں کارروائی کا دائرہ کار لندن میں موجود ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، انور علی اور دیگر نامزد ملزمان کے خلاف بڑھایا جائے گا۔ نامزد ملزمان کی گرفتاری کے لیے حکومت پاکستان برطانوی پولیس سے مدد طلب کرے گی۔
اہم ترین بات یہ کہ پاکستان میں مقدہ درج ہونے کے بعد اب یہ طے ہے کہ خالد شمیم، معظم علی اور محسن کو قانونی طور پر برطانیہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا، اگر دونوں ممالک ملزمان کی حوالگی کے باہمی معاہدے پر دستخط کر دیں تو پھر حوالگی ممکن ہو سکتی ہے ۔