02 جون ، 2012
مانسہرہ… ضلع کوہستان کے علماء اور پولیس نے موبائیل وڈیو اسکینڈل میں 4لڑکیوں اور 2نوجوانوں کے قتل کے احکامات کو سراسر بے بنیاد قرار دے دیا ہے،تاہم متاثرہ نوجوانوں کے بھائی محمد افضل نے ایک بار پھر حکومت سے مدد کی اپیل کی ہے۔ کوہستان کی تحصیل پالس کے مخصوص ماحول میں 2ماہ قبل منظر عام پر آنے والی موبائیل وڈیو اور اسکی وجہ سے 6افراد کے قتل کے احکامات کی خبروں نے اندرون اور بیرون ملک تہلکہ مچادیا۔ وڈیو میں گل نزر اور بنیا سیر نامی 2نوجوانوں کو ناچتے اور4لڑکیوں کو انکی حوصلہ افزائی کرتے دکھایا گیا۔ میڈیا کو سب سے پہلے متاثرہ لڑکوں کے بھائی محمد افضل نے نامعلوم مقام سے فون پراطلاع دی کہ لڑکیوں کے قبیلے آزاد خیل نے ان بھائیوں کے ساتھ 4لڑکیوں کے قتل کا پروانہ بھی جاری کر دیا ہے، حکومت ان کی جان بچائے۔ میڈیا کی نشاندہی پر حکومت نے سخت نوٹس لیا، تاہم علماء نے اس واقعہ کوبعض قوتوں کے ذریعے محمد افضل کی سازش قرار دے دیا۔ ڈی ایس پی پالس طاہر رحمان دو روزتک دشوارگذار سفر کرنے کے بعد واقعے کی ابتدائی تفتیش مکمل کرکے آئے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ دور افتادہ گاوٴں میں دونوں قبائیل میڈیا کے واویلا سے لاعلم ہیں، نہ تو وہاں خواتین کے گھروں میں قید ہونے کا کوئی ثبوت ملا اور نہ کسی کے قتل کے احکامات کی شہادت موصول ہو سکی۔ کیس کی تحقیقات ختم نہیں ہوئیں لیکن نفری واپس بلا لی گئی ہے۔ تاہم محمد افضل کا بدستور یہی کہنا ہے کہ علماء اور پولیس معاملے کو دبانے کے لئے یہ بات کررہے ہیں اور معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی تمام لوگوں کو قتل کر دیا جائیگا۔