29 جولائی ، 2016
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اظہارِ رائے کی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ قومی اداروں کو بدنام اور ججوں کی تضحیک کی جائے،سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم کے پسِ پردہ عناصر کو سامنے لایا جائے۔
عدالت نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے اٹارنی جنرل، ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین پیمرا اور چیئرمین پی ٹی اے کو میکنزم بنانے کا حکم بھی دے دیا،چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کیس کی سماعت سے الگ ہوگئے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ، جسٹس انور ظہیر جمالی، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم سے متعلق کیس کی سماعت سے الگ ہوگئے، سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاملہ ان کی ذات سے متعلق ہے، اس لئے ان کا بینچ میں ہونا مناسب نہیں۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ عدلیہ مخالف ویڈیو میسنجر اور سوشل میڈیا کی ویب سائٹ سے وائرل ہوئی۔
چیئر مین پی ٹی اے نے کہاکہ سوشل میڈیا کی ویب سائٹ کا مین سرور امریکا میں ہے اور اس کے خلاف کارروائی ممکن نہیں اور نہ ہی سوشل میڈیا کے ذریعے مواد پھیلانے والے کو ٹریس کیا جاسکتا ہے کیونکہ اکثر جعلی آئی ڈیز سے ایسا کام کیا جاتاہے۔
عدالت نے کہا کہ اگر کوئی ویب سائٹ ملکی قوانین کے خلاف کام کرے تو اِسے بند کردیں، چیئر مین پی ٹی اے نے جواب دیا، ایسا ممکن نہیں۔
عدالت نے کہا کہ قانون کی عملداری یقینی بنائیں، ضروری ہو تو قانون بھی بنائیں، اگر ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ ویب سائٹ بند کرنا ہی آخر حل ہو تو کیا جاسکتا ہے، آزادی اظہار رائے کا یہ مطلب نہیں کہ ججز کی تضحیک کی جائے، پیمرا نے صرف جرمانہ عائد کیاجو کافی نہیں۔
چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے بتایا کہ 6ماہ میں تین چینلز پر جرمانہ کیا تاہم پیمرا کے ساڑھے تین سو کیسز پر عدالتوں میں حکم امتناع ہے۔
سپریم کورٹ نے وائس چیئر مین سندھ بار کونسل بیرسٹر صلاح احمد کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے حکم دیا کہ عدالتوں میں زیر التوا پیمرا سے متعلق ساڑھے تین سو کیسز کی فہرست پیش کی جائے، عدالت ان مقدمات کا جائزہ لینے کے بعد کوئی فیصلہ کرے گی۔