24 اکتوبر ، 2016
سانحہ12مئی2007ء سے سابق صدر پرویز مشرف اور ان کی ایک’’حلیف جماعت‘‘ خود کو دور رکھ پائیں گے یاوہ کبھی ان متفقہ تجاویز کو قبول کرنے پر آمادہ ہوں گے جو سندھ انتظامیہ کے پانچ سے چھ اعلیٰ سطحی شخصیات کی طرف سے سامنے آتی ہیںکہ پولیس، رینجرز اور متعلقہ انٹیلی جنس حکام نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کو ریلی کی اجازت دی۔
انتہائی معتبر ذرائع نے اس بات کا انکشاف کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم بھی پرویز مشرف اور افتخار چودھری کے تنازع کی آلہ کار بن گئی حالانکہ ایم کیو ایم اور افتخار چودھری کے درمیان کسی قسم کی کوئی سیاسی رقابت نہیں تھی۔12مئی2007ء کے روز ایم کیو ایم کے مبینہ شرپسندوں نے امن عامہ کی صورت حال کو خراب کیا،یہ اسی دن کا کیا دھرا ہے کہ ایم کیو ایم آج بھی اس واقعہ کے اثرات سے باہر نہیں آ سکی اور سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔
مو جودہ حکومت کے سیکھنے کیلئے سانحہ 12 مئی 2007 کافی ہے بالخصوص عمران خان کے اعلان کردہ 2 نومبر کے اسلام آباد دھرنے کے تناظر میں موجودہ حکومت نئے مسائل سے بچنے کیلئے 12 مئی کا واقعہ اپنے سامنے رکھے۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد ممکن ہے اس کیس میں ملوث نہ ہوں لیکن معاملے کی صاف اور شفاف تحقیقات کی صورت میں وہ کئی سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے افتخار محمد چودھری کو ریلی نکالنے کی اجازت دینے سے متعلق صوبائی حکمت کی رضامندی کو کیوں نظر انداز کیا جس کے نتیجے میں اس روز50افراد لقمہ ا جل بنے جن میں اے این پی ، پی پی، ایم کیو ایم کے لوگ بھی شامل تھے۔ اگر اس پہلو پر تحقیقات ہو کہ ریلی کو منظم انداز میں آگے بڑھنے کی اجازت دی جاتی تو درجنوں معصوم جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
سانحہ 12 مئی کی نئے سرے سے تحقیقات کا مقصد اس روز ہونے والی خونریزی کے پس پردہ اصل عوامل اور حقائق کا تعین کرنا ہے یا محض شہ سرخیوں کی زینت بننا ہے اور ماضی کے دیگر سانحات 1986 کے علی گرج کے قتل عام، 1988 میں حیدر آباد میں خونریزی اور و کلاء کو ز ندہ جلانے کے واقعات کی طرح یہ قصہ پارینہ بن جائے گا۔ بااثر ایس ایس پی رائو انوار کے ذریعے ہونے والی نئی تحقیقات نے کئی شکوک و شہبات کو جنم دیا ہے۔ ایس ایس پی رائو انوار کے ایم کیو ایم کے تین دہشت گردوں کے بھارتی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ سے تعلقات کے الزامات کے مقدمے میں انسداد دہشت گردی عدالت نے مذکورہ تینوں ملزمان کو بری کر دیا ہے۔
ایک ماہ قبل رائو انوار نے اس وقت خود کو مصیبت میں پھنسا لیا تھا جب وہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخواجہ اظہار کو بغیر وارنٹ گرفتار کرنے ان کے گھر پہنچ گئے تھے۔ یہ صورتحال وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کیلئے ابھی خاصی پریشان کن تھی۔ انہوں نے رائو انوار کو معطل کر دیا۔ رائو انوار نے وسیم اختر کو گرفتار کر لیا تھا جب وہ ابھی میئر کراچی نہیں بنے تھے۔ ان پر سانحہ12 مئی2007 میں ہلاکتوں کا الزام تھا۔ اس حوالے سے جے آئی ٹی بھی بنائی گئی لیکن سانحہ کے پیچھے سازش اور اس کے اصل محرکات کی نشاندہی نہ ہو سکی۔
یہ بات درست ہے کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ نقص امن کو کنٹرول کرتے لیکن 12 مئی 2007 کے موقع پر یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ حکومت اور انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ حکومت سانحہ 12 مئی کی تحقیقات میں سنجیدہ ہے تو اسے فرض شناس اور دیانتدار افسران پر مشتمل ایک آزاد اور غیر جانبدار تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے جو اس سارے معاملے کے پیچھے چھپے سچ کو بے نقاب کرے لیکن اگر تحقیقات کی آڑ میں معاملے کو دبانا ہے تو سچ کبھی سامنے نہیں آ سکے گا اور اس کا حشر بھی ’’را‘‘ سے تعلقات والی کہانی جیسا ہی ہوگا۔
مثبت اور ٹھوس تحقیقات کی صورت میں معاملہ آگے بڑھتا ہے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ کئی اہم پہلوئوں سے پردہ ہٹے گا اور اس دردناک سانحہ کے ذمہ دار کئی مزید کرداروں کے چہرے سے بھی گرد صاف ہو سکتی ہے جیسا کہ ارباب غلام رحیم، اس وقت کے آئی جی پولیس کمال شاہ، متعلقہ ایس ایس پیز اور ایس پیز کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو اس وقت اگلی صفحوں میں انتظامی امور سنبھالے ہوئے تھے۔ سانحہ 12 مئی کی دوبارہ تحقیقات کے تناظر میں یہ بات جاننا نہایت ضروری ہے کہ واقعہ سے ایک رات قبل گورنر ہائوس میں ہونے والے اہم ترین اجلاس میں شریک اعلیٰ حکام نے سابق صدر پرویز مشرف کو یہ متفقہ رائے بھجوائی تھی کہ افتخار چودھری نے اپنا کراچی کا دورہ منسوخ کرنے سے انکار کر دیا ہے اس لئے انہیں روکنے کی صورت میں بڑے پیمانے پر تشدد اور تصادم کا اندیشہ ہے انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ معاملات قابو سے باہر بھی ہو سکتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پرویز مشرف نے صوبائی حکام کی رائے سے اتفاق کر لیا تھا تاہم بعد میں کہا گیا کہ افتخار چودھری کو کراچی آنے سے منع کر دیا جائے اور انہیں روکا جائے۔ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پروپز مشرف کے کہنے پر اس وقت کون تھا جس نے لندن میں ایم کیو ایم کی قیادت کوبتایا۔ ایم کیو ایم بھی اس وقت تک اس ایشو پر منقسم تھی تاہم اسلام آباد سے ریلی روکنے کے آخری پیغام کی وصولی کے بعد حتمی فیصلہ کیا گیا۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ گورنر ہائوس میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس جس میں پولیس، رینجرز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ عہدیدار شریک تھے۔وہ تمام اس بات پر متفق تھے کہ افتخار چوہدری کو بتا دیا جائے کہ وہ ریلی منسوخ کر دیں اگر وہ ہدایات ماننے سے انکار کر یں تو انہیں ریلی کی اجازت دے دی ہے۔افتخار چودھری کو ریلی نکالنے کی ایک اور آخری کوشش اس وقت کی گئی جب سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے انہیں کہا کہ دہشت گردی کے خطر ےکے پیش نظر ریلی کا پروگرام منسوخ کیا جائے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ایک بار پھر انکار کر دیا کہ پرویز مشرف اس سیاسی حلیف جماعت ایم کیو ایم کے ذریعے رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔
سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خطاب کے تمام انتظامات کر لئے تھےاور تحریری طور پر سندھ حکومت سے امن وامان کو یقینی بنانے کی درخواست بھی کی تھی ۔ایم کیو ایم سے بھی ایم اے جناح روڈ پر ریلی نہ نکالنے کے لئے کہاگیا تھا کیونکہ اس صورت میں وکلاء اور مخالف پارٹیوں کے درمیان اشتعال انگیزی بڑھنے کا خدشہ تھا۔سابق صدر پرویز مشرف کے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سے اختلافات بہت آگے بڑھ چکے تھے حالانکہ اس سے قبل افتخار چودھری کے اپنی سروس کے دوران جنرل (ر) پرویز مشرف سے بہت معتدل تعلقات تھے ۔تاہم 2006ءکے بعد ان تعلقات میں اس وقت تبدیلی آنا شرو ع ہوئی جب سندھ میں مبینہ طورپر کچھ لوگوں کو ایک بااثر سمجھے جانیوالے پیر کے مرید کی نجی جیل میںنظر بند رکھا گیا ، اس کیس نے بہت جلد ملک گیر شہرت حاصل کر لی جس کے بعد سندھ حکومت پر دبائو بڑھ گیا ، تاہم صورتحال اس وقت سنبھل گئی جب مذکور ہ پیر نے از خود پولیس سے کہہ کر جیل پر چھاپہ مروایا اور انہیں آزاد کیاگیا۔سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی نجکاری پالیسی بھی افتخار چودھری کے زیر غور تھی اور یہ معاملات بھی حکومتی اُمور چلانے میں رکاوٹ ثابت ہو رہے تھے ۔
وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نےبھی پرویز مشرف کو اس بات کی شکایت کی تھی ۔پرویز مشرف کی افتخار چودھری سے دوری کو تقویت پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کے معاملے پر ملی تب افتخار چودھری کو جس طریقے سے جی ایچ کیو طلب کیاگیا اور ان سے استعفیٰ مانگا گیایہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ۔ افتخار چودھری کاانکار پرویز مشرف کی ہر طرح کی پالیسیوں سے انکار تھا ۔
اس کے بعد جو ہوا وہ سب پاکستان کی تاریخ کا ایک حصہ ہے، تاہم 2007ء کوپرویز مشرف کی حکمرانی کابدترین سال رہا اور یہ سال محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت جیسے اندوہناک واقعہ پر ختم ہوا ۔
12مئی 2007ء کو جو کچھ ہوا وہ ایک آمر کی اپنی ہر جائز و ناجائز بات کو تسلیم کروانے پر تل گیا تھا بالآخر اس کی قیمت ملک اور قوم کو چکانی پڑی ۔ اس سارے جرم میں ایم کیو ایم کا کردار ایک معاون کا ہو سکتا ہےجو اس سانحہ سے اپنا دامن چھڑا نہیں سکتی ۔سانحہ 12مئی کی تحقیقات اس وقت تک بے نتیجہ رہیگی جب تک اس واقعہ کے حقائق منظرعام پر نہیں آتے۔