10 نومبر ، 2016
اگلے 48گھنٹوں میں سندھ کا نیا گورنر آجائے گا اور عشرت العباد مستعفی ہوجائیں گے۔ بحران کا شکار وزیراعظم نواز شریف نے باالآخر اپنے کسی قریبی شخص کو گورنر سندھ بنانے کا فیصلہ کرہی لیا۔
وزیراعظم کے ترجمان نے نئے گورنر کے آنے کی تصدیق کی ہے مگر گورنر ہاؤس کا کہنا ہے کہ تاحال گورنر کو مستعفی ہونے کا نہیں کہا گیا۔
عشرت العباد کا متبادل ملنا آسان نہیں۔ تمام تنازعات کے باوجود انہوں نے 14 سال کا طویل عرصہ گزارا۔ وہ شاید اب تھکن کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان کے دور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
2002 میں سابق آمر پرویز مشرف نے انہیں الطاف حسین کی رضامندی سے گورنر بنایا۔ ان کے ممکنہ جانشین سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کا ریکارڈ صاف ستھرا ہے لیکن شاید بدلتے منظر نامے میں وہ درست انتخاب نہیں، مگر پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے کیوجہ سے انہیں نواز شریف کا اعتماد حاصل ہے۔
عشرت العباد کی کئی خصوصیات ہیں۔ انہیں شاید اسی وقت مستعفی ہوجانا چایے تھا جب الطاف حسین نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور فاروق ستار نے پارٹی مفادات کا خیال نہ رکھنے کا الزام لگایا۔ ان کی واپسی کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں۔
ایک الطاف حسین کے بارے میں حالیہ نرم بیان۔ دو مصطفیٰ کمال کے الزامات پر بڑا ردعمل، جو شاید اسٹیبلشمنٹ کو پسند نہ آیا۔ تین بلاول کی پی پی پی میں شمولیت کی پیش کش۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کا اعتماد ان پر ختم ہوچکا ہے اور ن لیگ اپنا شخص لانا چاہتی ہے۔
عشرت العباد نے طویل اننگ کھیلی اور لوز شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوگئے۔ 22 اگست کے بعد کے منظر نامے میں وہ شاید اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد کھو بیٹھے۔ ذرائع کے مطابق مصطفی کمال اور عشرت العباد میں راضی نامہ اس وقت ہوا جب مصطفی کمال کو یقین دہانی کرائی گئی کہ عشرت العباد آئندہ کسی کو پی ایس پی میں شمولیت سے نہیں روکیں گے اور مصطفی کمال کے الزام کی تحقیقات ہوں گی۔
مصطفی کمال کے الزام پر وہ بہت پریشان تھے اور انہیں وزیراعظم نے اور پنڈی میں بعض اہم لوگوں نے یقین دہانی کرائی جب ان کی پریشانی کم ہوئی۔ ادھر مصطفی کمال نے بھی متعلقہ حلقوں کو بتایا کہ گورنر ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی کو پی ایس پی میں شمولیت سے روک رہے ہیں اور پی ایس پی رہنما اشفاق منگی کے گھر پر چھاپے اور انیس قائم خانی کی رہائی میں رکاوٹوں میں ان کا ہاتھ ہے۔
گورنر کی تبدیلی سے پی ایس پی کا حوصلہ بڑھے گا اور وہ مزید متحرک ہوسکتی ہے۔ گورنر نے متعلقہ حلقوں سے ملاقات میں پی ایس پی کے قیام کے مخالف کی تھی۔ مگر ایم کیو ایم میں مزید ٹوٹ پھوٹ اور طارق روڈ کراچی اور حیدرآباد میں پی ایس پی کے جلسے کے بعد متعلقہ حلقوں کو پی ایس پی میں دم نظر آیا۔
ادھر ایم کیو ایم پاکستان نے بھی 25 دسمبر کو جلسے کا اعلان کیا ہے۔ پی ایس پی کا الزام ہے کہ گورنر ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن میں مصالحت کرا رہے ہیں، جس کی دونوں نے تردید کی۔ پھر ان کے مشرف اور زرداری سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔
ان کے واپسی سے دونوں سابق صدور کو دچھکا لگے گا۔ عشرت العباد کی بلاول اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے حالیہ ملاقات پر سیاسی حلقوں کا ملاجلا ردعمل آیا مگر یہ ملاقات پاناما لیکس کے تناظر میں ن لیگ کو اچھی نہیں لگی۔ مشرف بھی خواجہ اظہار سے ملاقات کے بعد ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔
ایم کیو ایم نے 1992 سے 2002 تک مشرف کی حمایت نہیں کی اور 2002 کے الیکشن کے بعد اتحاد میں شامل ہوئی، جب اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم حقیقی کو ختم کردیا، مشرف نے گورنر کو کراچی، حیدرآباد کے انتظامی اختیارات اور دونوں شہروں کی ترقی کیلئے مالی مدد دی۔
اس کے عوض ایم کیو ایم نے وزیراعظم ارباب غلام رحیم کی حمایت کی۔ مشرف، زرداری، نواز شریف سبھی نے عشرت العباد کے کردار کو سراہا ہے۔ 12 مئی 2007، ذوالفقار مرزا اور ایم کیو ایم کے تصادم میں بھی انہوں نے اپنی پوزیشن بچا کر رکھی اور اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا رہے، مگر پچھلے تین سال ان کیلئے مشکل رہے، اور کراچی آپریشن میں الطاف حسین کے ساتھ ان کا معاملہ ان کے لیے پریشانی کا باعث بن گیا۔