بلاگ
12 نومبر ، 2016

ایم کیو ایم قومی دھارے سے باہر ہو چکی؟

ایم کیو ایم قومی دھارے سے باہر ہو چکی؟

 ایم کیو ایم عملی طور پر اب قومی سطح کی سیاست سے باہر ہو چکی ہے جس کی ایک وجہ تو اس کی اپنی خامیاں اور انداز سیاست جبکہ دوسری طرف اربن سندھ کے بارے میں حکمرانوں کی سوچ میں تبدیلی ہے، یہاں تقریباً25 سال سے واحد جماعت کو ووٹ مل رہے تھے اور وہ ان کی واحد نمائندہ تھی، یہ ایک سوال ہے کہ کیا یہ صورتحال منفی نتائج لائے گی یا اس کی قیمت ادا کرنا ہو گی؟ ۔

سندھ کے ایک دور کے طاقتور گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کے 14سال بعد خروج سے طاقت کا توازن قائم ہوگیا، اب پی پی پی کی سندھ حکومت مکمل طورپر طاقتور ہو چکی ہے جبکہ حکمران مسلم لیگ(ن) اپنی مستقبل کی سیاست کیلئے گورنر آفس کو استعمال کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ (ن) لیگ کے سنیٹر نہال ہاشمی نے جلدی میں بیان دیا اورنئے گورنر سندھ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس(ر) سعید الزماں صدیقی کی نئی ذمہ داریاں شروع کرنے سے پہلے ہی انہوں نے  گیم پلان افشا کر دیا۔اگر ہاشمی کو’’مہاجر‘‘ سیاست کی تھوڑی سی بھی سمجھ ہوتی تو وہ ایسا بیان ہرگز نہ دیتے کیونکہ یہ الطاف حسین کے خلاف نہیں بلکہ ان کے حق میں جائے گا، شاید یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے فوری طور پر اس نقصان دہ بیان سے اپنے آپ کو الگ کر لیا۔

اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی، ایم کیو ایم کو قومی دھارے کی سیاست سے باہر کرنے پرایک صفحہ پر نظر آتے ہیں تاہم اس کا تمام تر انحصار کراچی اور حیدر آباد کے بارے میں ان کی پالیسیوں پر ہو گا۔ کیا پی پی پی اس صورتحال کو اپنے حق میں کرتی ہے یا مسلم لیگ (ن) کراچی میں سیاسی فوائد کے لئے مرکز سے منصوبوں کو استعمال کرے گی؟ تاہم شہر کا معاملہ صرف ترقی نہیں بلکہ سیاسی ملکیت کا ہے جو ایم کیو ایم میں دھرے بندی کے باوجود’’مہاجر فیکٹر‘‘ کے گردگھومتی ہے۔

سند ھ حکومت کی طرف سے گزشتہ تین سالوں کے دوران بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات میں کمی اور میئر کے عہدے کو محدود کرنے سے لسانی تنائو کم نہیں ہو گا بلکہ اس سے احساس محرومی بڑھے گا۔ لیکن حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ جس مقصد کیلئے مہاجر سیاست کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی وہ اب ختم ہو چکا ہے، پی پی پی اب قومی انتخابی سیاست میں چیلنج کی پوزیشن میں نہیں اور جماعت اسلامی کا بھی کراچی کے تناظر سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

پس وہ محسوس کرتے ہیں کہ تمام تر امکانات یہی ہیں کہ کراچی کا ووٹ ایک جماعت کو نہیں جائے گا اور آئندہ عام انتخابات میں مینڈیٹ منقسم ہو سکتا ہے، یہ نیا بیانیہ جسے طاقت ور لابیاں ’’مائنس ایم کیو ایم‘‘ کے طور پرآگے بڑھا رہی ہیں لسانی  سیاست کا حل یا متبادل نہیں جس سے مسائل بڑھ سکتے ہیں اور منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، سندھ کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد شاید ایم کیو ایم سے نسبت والے آخری طاقتور گورنر تھے جبکہ ان کی جماعت انہیں ایک سال پہلے نکال چکی ہے وہ اب صدر ممنون حسین، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ملاقاتوں کے بعد دوبئی روانہ ہو چکے ہیں اور اب سب کو تبدیلی کی حقیقی وجہ کے بارے میں اندازوں کیلئے چھوڑ دیا ہے۔

انہیں اسٹیبلشمنٹ اور اربن سندھ کے درمیان پل سمجھا جاتا تھا مگر 22اگست کے بعد ان کی افادیت نہیں رہی تھی جب ایم کیو ایم میں ایک دھڑا وجود میں آیا جبکہ اس سے قبل یہ اربن سندھ کی متحد قوت تھی۔ کون اس خلا کو پُر کرے گا اور کیسے؟ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ریٹائرڈ جسٹس سعید الزماں صدیقی کی تقرری کی اپنی جگہ الگ اہمیت ہے مگر اس سے عملی طور پر گورنر کا آئینی کردار بحال ہو گیا ہے اور دوسری جانب سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کا رورل اور اربن سندھ میں طاقت کے توازن کا فارمولہ بھی دم توڑ گیا ہے۔

ایم کیو ایم کا اسٹیبلشمنٹ اور سابق حکومت سے ’’نفرت و محبت‘‘ کا تعلق 2013ء کے بعداس وقت  ختم ہو گیا جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایم کیو ایم کو مرکز یا صوبے میں کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنایا جائے گا، کیونکہ ڈاکٹر عشرت العباد بلکہ ایم کیوایم کی بھی اب کوئی اہمیت نہیں رہی کیونکہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کسی لے دے کے بغیر وفاقی حکومت بنانے کے بعد سے کسی صوبے میں اپوزیشن جماعتوں کی حکومتوں کو پریشان نہ کرنے کا پہلے ہی فیصلہ کرچکی ہے۔سندھ میں پی پی پی جو ہمیشہ ان کے ساتھ چلتی رہی ہے، اس نے بھی فیصلہ  کیا کہ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا جائے گا اس صورتحال کے بعداس سال کے اوائل میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات  تک ایم کیو ایم عملی طور پر قومی سطح کی سیاست سے باہر رہی۔

ایم کیو ایم میں خلفشار کے بعد اس نے سیاسی مقام کھو دیا اور کراچی کے ’’ٹارگٹڈ آپریشن‘‘ نے اسے سخت نقصان پہنچایا۔دوسری جانب پی پی پی کی قیادت میں قائم سندھ حکومت نے ایم کیو ایم کے مضبوط حلقوں میں جگہ بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے اور یہ منفی ثابت ہوئے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی کے لئے بہت کچھ کیا اور شاید وہ آخری پی پی پی لیڈر تھے جنہوں نے لیاقت آباد میں عوامی جلسہ کیا جب انہوں نے وہاں سپر مارکیٹ کا ا فتتاح کیا لیکن جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان کی طرف سے سندھ زبان بل کی مخالفت سے رورل اور اربن سندھ میں تقسیم واضح ہو گئی جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم وجود میں آئی۔

سندھ حکومت کی طرف سے مقامی حکومتوں اور کراچی کے میئر کے اختیارات کو محدود کرنے ، مقامی حکومت کے اداروں کے تمام اکائونٹس منجمد کر کے ان کی سندھ بینک میں منتقلی کی ہدایات، کراچی بلڈنگ اتھارٹی کی سندھ بلڈنگ اتھارٹیز میں تبدیلی اور اس قسم کے بعض دیگر اقدامات سے پی پی پی یا سندھ حکومت کو کوئی مدد نہیں ملے گی  بلکہ اس سے احساس محرومی مزید بڑھے گا۔ ظاہر ہوتا ہے کہ سہ جہتی حکمت عملی سے ہم اربن سندھ کے سیاسی مینڈیٹ کو منقسم دیکھتے ہیں جبکہ پی پی پی رورل سندھ میں اپنی پوزیشن مضبوط کرے گی اور اس بات کا امکان نہیں کہ مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف اسے متاثر بھی کر سکیں اور کوششیں کی جا رہی ہیں کہ کراچی اور حیدر آباد میں یقینی بنایا جائے کہ این بلاک کو ووٹ نہ ملے۔

’’ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن‘‘ نے 1995ء کے مقابلے میں ایک انتہائی منظم کارروائی  کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی عسکریت پسندی کی ریڑھ کی ہڈی تقریباً ٹوٹ چکی ہے، دوسرے ایم کیو ایم کے اندر دھڑے بندی کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی گئی ہے بلکہ یہ کچھ حد تک مبینہ طور پر’’منصوبہ بندی‘‘ سے کی گئی۔وہ اب واضح طور پر تین بڑے دھڑوں میں بٹ چکی ہے جن میں ایم کیو ایم، پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان شامل ہیں۔ تیسری کوشش یہ ہو گی کہ کراچی کو ’’منقسم گھر‘‘ بنایا جائے۔ اگر مارچ یا  اپریل 2017ء میں مردم شماری کے بعد حلقے بندی سے یہ معلوم ہو کہ’’مہاجر‘‘ پاکستان کے اقتصادی مرکز میں اقلیت میں ہیں تو یہ حیران کن نہ ہو گا۔

ماضی میں ایک بار ایم کیو ایم کراچی کی 20میں سے 7نشستوں سے محروم ہوئی جب 2002ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کی لہر چلی تھی تاہم 2008ء کے انتخابات میں اس نے اپنی پوزیشن واپس بحال کر لی۔ 2013ء کے انتخابات میں اس نے اپنی نشستیںبرقرار رکھیں مگر پی ٹی آئی کی موجودگی کو محسوس کیا گیا۔ بدقسمتی سے وہ اپنی پوزیشن مضبوط نہیں کر سکی اور اس نے 8لاکھ ووٹ حاصل کئے اور اب امید ہے کہ وہ ایم کیو ایم مخالف اتحاد کے ذریعے بحالی حاصل کر سکتی ہے جس کے لئے بعض حلقے آئندہ انتخابات سے قبل کام کر رہے ہیں۔

ایم کیو ایم نے اس وقت اپنے آپ پر اس وقت وار کیا  جب اس کی لندن قیادت اور بانی الطاف حسین نے زمینی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے 19مئی 2013ء کی اپنی پارٹی کی قیادت کے خلاف تقریر کے بعد ایک اور دھڑے کی بنیاد رکھی، اس کے بعد پی ایس پی وجود میں آئی جس کی قیادت سابق سٹی ناظم جیسے ایم کیو ایم کے اہم چہرے مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم بحال نہ ہو سکی اور اس کی قیادت غلطیوں پر غلطیاں کرتی چلی گئی اور اس نے کراچی آپریشن کا غلط اندازہ لگایا۔

سابق گور نرڈاکٹر عشرت العباد شاید ایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان آخری رابطہ تھے جب پارٹی نے ان سے فاصلہ  قائم کیا اور ان کے مشورے اور الطاف حسین کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دی گئی وارننگ کو نظر انداز کیا تو اس کی بھاری قیمت ادا کی۔ کراچی اور اربن سندھ کی ممکنہ انتخابی تقسیم کے بارے میں کوئی پیش گوئی تو مشکل ہے مگر یہ ہونا ممکن نہیں کہ ہم کراچی کا کوئی تن تنہا نمائندہ دیکھ سکیں۔

کیا یہ ووٹ قومی جماعتوں پی پی پی، ن لیگ یا پی ٹی آئی کو جائے گا یا لسانی و مذہبی جماعتوں میں تقسیم ہو گا یہ وقت ہی بتائے گا۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو گرایا جا سکتا ہے مگر مکمل طور پر نہیں اور وہ آئندہ انتخابات میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں مگر اس کا انحصار اس پر ہے کہ حکمران طبقہ سندھ کی سیاست کوکس طرح  لیتا ہے اور مہاجر ووٹرز کوئی فیصلہ کرے گا یا گھر میں بیٹھا رہے گا۔ انہیں اور ایم کیو ایم کے دیگر دھڑوں کو اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ قومی سیاسی دھارے میں باہر ہو رہے ہیں اور اپنے انداز سیاست کے خود اسیر  ہیں اور یہی حکمران طبقے کا گیم پلان ہے۔ اس کے نتائج اس ثقافتی ، ادبی اور سیاسی ورثے سے معمور  صوبے کے لئے اچھے نہیں ہوں گے۔