بلاگ
14 نومبر ، 2016

تحریک انصاف اپنے ’’بائیکاٹ‘‘ کے فیصلے پر نظر ثانی کیوں کرے؟

تحریک انصاف اپنے ’’بائیکاٹ‘‘ کے فیصلے پر نظر ثانی کیوں کرے؟

17نومبر کو ترک صدر رجب طیب اردگان کے خطاب کے حوالے سے بلائے جانے والےپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س میں پاکستان تحریک انصاف کے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ان کے اپنے حق میں بہتر نہیں ہوگاکیوں کہ یہ دورہ کرنے والے غیر ملکی سربراہ کے لیے شرمندگی کا با عث ہوگا۔

پی ٹی آئی کا بائیکاٹ کے حق میں دلیل دینا  اور یہ کہنا کہ وہ ایسا وزیر اعظم کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے کررہے ہیں تو یہ قابل فہم نہیں ہے۔ترک صدر  کو پاکستانی صدر ممنون حسین نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی دعوت دی ہے اور ان کا ایسا کرنا جمہوری نظام اور مضبوط پاکستان کی علامت ہے۔

جب کہ دوسری طر ف پی ٹی آئی رہنماترک صدر سے علیحدہ ملاقات کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اپنے بائیکاٹ کی وجہ بیان کرسکیں۔یعنی وہ جانتے ہیں کہ ان کااجلاس کے دوران پارلیمنٹ سے باہر رہنا سفارتی حلقوں میں اچھا تاثر نہیں چھوڑے گا۔سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی موجودگی میں، جو کہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما ہیں کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کو وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف احتجاج کا پورا حق ہے۔جب تک سپریم کورٹ پاناما پیپر ز پر اپنا فیصلہ نہیں سنا دیتی وہ وزیر اعظم کے ہر اقدام کا بائیکاٹ بھی کرسکتے ہیں تاہم صدر اردگان کے خطاب میں شرکت نہ کرنا خاصا غور طلب ہے۔

2014 میں بھی پی ٹی آئی نے اسی طرح کی غلطی کی تھی، جس پر اسے شد ید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا، جب انہوں نے چینی صدر کے دورے کے باعث تین دن کے لیے اپنا احتجاج ختم کرنے سے انکار کردیا تھا۔جس کے باعث چینی صدر کو اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔اسی طرح اب ایک بار پھر انہوں نے صدر اردگان کے پارلیمنٹ سے مشترکہ اجلاس کے دورا ن خطاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیاہے۔

پی ٹی آئی ارکان اسمبلی جن میں عمران خان بھی شامل ہیں پارلیمنٹ کے رکن ہیں اور وہ اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ایک بات اب تک حتمی نہیں ہے کہ کیا عمران خان نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو  اس اجلاس میں شرکت سے منع کیا ہے یا نہیں، کیوں کہ انہیں دیگر وزرا اعلیٰ اور گورنروں کی طرح مدعو کیا جاسکتاہے۔

اس لیے پارلیمنٹ سے مستعفی ہوئے بغیرپی ٹی آئی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قانونی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے وقار کا بھی احترام کرتی ہے۔ان کے ارکان بھی وہاں سے سہولیات حاصل کررہے ہیں تو پھر آخر کیوں وہ ایک غیر ملکی سربراہ کا احترام نہیں کررہے۔

پی ٹی آئی رہنمائوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس وزیر اعظم نے نہیں بلکہ صدر نے طلب کیا ہے۔بجائے اس کے ،وہ صدر یا وزیر اعظم کے استقبالیہ خطاب کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں یا پھر ان کی جانب سے دیے جانے والے عشائیہ میں شریک ہونے سے انکار کرتے۔

البتہ ترکی کی ناکام بغاوت کے تناظر میں ترک صدرکے اہم خطاب میں شریک نہ ہونا درست فیصلہ نہیں۔یہ فیصلہ اس لیے بھی حیرت انگیز ہے کہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی ا ن کے ساتھ موجود ہیں، جو اس طرح کے دوروں اور مشترکہ اجلاسوں کے خطاب کی اہمیت سے واقف ہیں۔یہاں تک کہ شیریں مزاری جیسی رہنما جو بین الاقوامی امور پر لکھتی رہی ہیں وہ بھی بخوبی جانتی ہیں کہ اس بائیکاٹ کا ترک قوم پر کیا پیغام جائے گا۔

صدر اردگان کا دورہ اور ان کا خطاب اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ ترکی میں بغاوت پر قابو پانے کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے۔اس لیے پی ٹی آئی رہنمائوں کو  اس اجلاس میں شرکت کرکے ترک صدر اور ترک عوام کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیئے۔حالاں کہ ترکی میں بغاوت پر قابو پانے کے بعد  وہاں کیے جانے والے اقدامات پر دو رائے ہوسکتی ہیں۔جیسا کہ ترک حزب اختلاف اور میڈیا کے خلا ف جس طرح اقدامات کیے گئے ، لیکن اس کے باوجود  یہ بھی حقیقت ہےکہ اردگان کی قیادت میں ترکی نے ترک فوج کے ایک دھڑے کی جانب سے کی جانے والی بغاوت کو کچل دیا۔

پی ٹی آئی لیڈر شپ ہمارے اندرونی سیاسی اختلافات کو اس سطح پر لاکر  بالواسطہ دنیا کویہ پیغام دینا چاہ رہی ہے کہ جب تک نواز شریف بااختیار ہوں گے ، حزب اختلاف  دنیا کے کسی حکمران کو خوش آمدید نہیں کہے گی۔اس طرح عمران خان اور ان کے رفقا ایک غلط روایت قائم کررہے ہیں۔

اس طرح کی صورتحال میںحکومت اور حزب اختلاف عام طور پر اپنے اندرونی تنازعات اور سیاسی اختلافات کو نظر انداز کردیتے ہیں، لیکن شاید عمران خان اپنے فیصلے پر قائم رہنا چاہتے ہیں، جو شاید درست نہ ہو۔دوسری طرف پی ٹی آئی ترک صدر پر یہ تاثر بھی ڈال سکتے ہیں کہ وہ ایک ذمہ دار حزب اختلاف کا کردار ادا کررہے ہیں، جنہوں نے عالمی تعلقات اور دوست ملک کے سربراہ کے دورے کے باعث اپنے اختلافات کو با لا ئے طاق رکھ دیا۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کو اس موقع کو گنوانا نہیں چاہیئے، چاہے انہوں نے پاناما پیپرز کے تناظر میں وزیر اعظم کے خلاف کوئی بھی سوچ رکھی ہو۔جیسا کہ ترک صدر کو بھی ان پیش رفت سے آگاہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان کا دورہ کررہے ہیں۔ماضی میں بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں بھی بڑے اختلافات رہے، مشرف کے دور میں بھی حزب اختلاف نے شدید مخالفت کی، تاہم ، بیرون ملک کے سربراہ کے دورے پر انہیں مکمل عزت و احترام دیا گیا۔

پی ٹی آئی لیڈر شپ کو یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کل وہ بھی حکومت بنا سکتے ہیں۔تاہم اس طرح کی پالیسی اور سیاست سے وہ اپنی ہی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں۔یہ فیصلہ بذات خود بھی غیر عقلی ہے، کیوں کہ سپریم کورٹ نے تو ابھی صرف سماعت کا آغاز کیا ہے، جب کہ اس کی اگلی سماعت 15 نومبر کو ہوگی۔

پی ٹی آئی کا یہ موقف کہ وہ نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں مانتے، بھی غیر آئینی ہے کیوں کہ  انہیں نہ ہی سپریم کورٹ نے قصور وار ٹھہرایا ہے اور نہ ہی وہ غیر آئینی طریقے سے منتخب ہوئے ہیں۔جب کہ دیگر سیاسی جما عتیں جن میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جے یو آئی (ایف)، اے این پی اور یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے ساتھی جماعت اسلامی بھی اس اجلاس میں شریک ہوں گی اور کسی نے بھی اس اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا، جس سے پی ٹی آئی نے خود کو مزید تنہا کرلیا ہے۔

ان میں سے کچھ جماعتوں کونواز شریف سے سخت تحفظات ہیں اور پاناما پیپرز کے حوالے سے وہ بھی ویسی ہی سختی برت رہے ہیں، جیسے پی ٹی آئی کا موقف ہے۔اس کے باوجود انہوں نے ایسا فیصلہ نہیں کیا۔پی ٹی آئی کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور کم از کم صدر اردگان کے خطاب کے دوران اجلاس میں شرکت کریں اور دنیا کو پیغام دیں کہ  پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہوچکی ہے۔