بلاگ
19 نومبر ، 2016

ایم کیو ایم کا’ٹائٹینک‘ ڈوب رہا ہے، 2016بدترین سال

ایم کیو ایم کا’ٹائٹینک‘ ڈوب رہا ہے، 2016بدترین سال

ایم کیو ایم ہائی جیک ہوئی ہے یا اسے بچایا گیا ہے، ایک بات یقینی ہے کہ وہ اتنی زیادہ تقسیم ہوگئی ہے کہ دوبارہ متحد ہونا ممکن نہیں۔پارٹی کے اندر اندرونی رسہ کشی تیز ہونے کا امکان ہے لیکن اس عظیم تقسیم نے مضبوط مہاجر ووٹ بینک کو بھی تقسیم کردیا ہے اور اس کا سیاسی ٹائٹینک ڈوب رہا ہے۔ یہ ایم کیو ایم کے 35 سالوں میں بدترین سال رہا ہے۔

الزام تراشی بے معنی ہے کیونکہ بدترین خمیازہ اس کےووٹروں کو بھگتنا پڑے گا۔ منزل نہیں رہنما چاہیے کی بنیاد پر سیاست اب ایک اہم مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ اگلے انتخابات سے پتہ چلے گا کہ مہاجر ووٹ بینک کتنا تقسیم ہوا ہے۔ یہ تقسیم ایسے وقت ہوئی جب مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے بعد کراچی کی نشستوں میں اچھی تعداد میں اضافہ کا امکان ہے۔ مگر اب شہر کی دو یا تین نمائندہ جماعتیں ہوں گی۔

ہر پارٹی اب ایم کیو ایم میں مزید تقسیم کی امید کررہی ہے اور ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے درمیان لڑائی کے حتمی نتائج کا انتظار کر رہی ہےجو پارٹیاں خلا کو بھرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ان میں جماعت اسلامی، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف شامل ہیں۔ تینوں کو 2013 کے انتخابات کے بعد مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ لیکن ایم کیو ایم کی تقسیم نے انہیں آگے بڑھنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔

ایم کیو ایم کے اندر تقسیم اب اختیارات کی جنگ میں بدل گئی ہے۔ خاص طور پر ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کے کارکن اب محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہے ہیں، جیسا کہ گزشتہ چند دنوں میں دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ پی ایس پی رہنماؤں مصطفی کمال، انیس قائم خانی اور رضا ہارون نے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مگر لندن کا رد عمل پی ایس پی کے مقابلے میں ایم کیو ایم پاکستان کے خلاف زیادہ ہے۔

پی ایس پی ایک نئی جماعت ہے جس نے ایم کیو ایم کے ساتھ تمام تعلقات توڑ لیے ہیں۔ وہ اپنے پرچم اور انتخابی نشان کے ساتھ اگلے انتخابات لڑے گی۔ ایم کیو ایم کو ایک مختلف چیلنج کا سامنا ہے اور وہ بھی کسی بھی دوسری پارٹی کی طرح پی ایس پی کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

پی ایس پی بھی ایم کیو ایم پاکستان کو اپنے اندر شامل کرنے کے لیے اس پر دباؤ بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اب تک ڈاکٹر فاروق ستار نے اسے مسترد کیا ہے۔ اگلے 30 دنوں میں، ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی دونوں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔ پی ایس پی نے 25 نومبر کو حیدرآباد میں اور ایم کیو ایم پاکستان نے 25 دسمبر کو جلسہ عام کا اعلان کیا ہے۔

طاقت کا یہ مظاہرہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے پیغام اور اپنی حمایت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہے کہ کس گروپ میں زیادہ وزن ہے، یہ بھی دلچسپ ہے پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان دو مختلف شہروں میں مظاہرہ کر رہے ہیں،  جو پہلے متحدہ کے مضبوط گڑھ تھے،پی ایس پی کے مقابلے میں ایم کیو ایم لندن کے لئے ایم کیو ایم پاکستان زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی اسمبلیوں اور بلدیات میں اب بھی نمائندگی ہے اور وہ پارٹی کے تنظیمی سیٹ اپ کو کنٹرول کرتی ہے۔

قانون کی نظر میں، ایم کیو ایم پاکستان الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ ہے اور اگلے انتخابات میں اپنے انتخابی نشان، پتنگ کے ساتھ لڑ سکتی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے رواں ماہ کے اوائل میں انٹرا پارٹی الیکشن منعقد کیے اور ڈاکٹر فاروق ستار کو ندیم نصرت کی جگہ کنوینر منتخب کیا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی ایم کیو ایم کے لیے سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے، اور اس کے نئے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کو قبول کیا ہے۔ ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کی علیحدگی کا عمل اب مکمل ہو گیا ہے یا دوسرے الفاظ میں علیحدگی اب طلاق میں تبدیل ہوگئی ہے۔ جمعرات کو لندن سے آیا رد عمل قابل فہم تھا۔ اس کے رہنماؤں ندیم نصرت، مصطفی عزیزآبادی اور دیگر نے ڈاکٹر فاروق ستار، وسیم اختر، خواجہ اظہار الحسن اور فیصل سبزواری پر پارٹی ہائی جیک کرنے کا الزام لگایا ہے۔

اب، فاروق ستار اور ان کی ٹیم پر لندن کا اعتراض کیسے صحیح ہے؟۔ نصرت اور دیگر کا خیال ہے کہ 22 اگست کے بعد الطاف حسین نے خود کو ایم کیو ایم پاکستان سے علیحدہ کرنے کے فاروق ستار کے موقف کو قبول کیا تھا لیکن جب پارٹی نے الطاف حسین کے خلاف دو قراردادیں پیش کیں اور سندھ اسمبلی میں اور اس کے رہنماؤں نے بھی الطاف کو غدار قرار دیتے ہوئے آرٹیکل 6 کے تحت عدالتی کارروائی کا مطالبہ کیا تو پھر نصرت اور دیگر کو اسے قبول کرنا ناممکن ہوگیا۔

ایم کیو ایم لندن کا خیال ہے کہ اگر قرارداد میں کچھ دوسرے رہنماؤں جو وقتا فوقتا پاکستان دشمن بیان دیتے رہے ہیں کی مذمت بھی شامل کی جاتی تو توازن پیدا ہوتا۔ پارٹی کے اندر اختلافات 2013 ء کے انتخابات کے بعد سطح پر آئے جو بعد پارٹی کے اندر بغاوت اور پی ایس پی کی تشکیل کا سبب بنے، میری معلومات کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے اندر بھی سندھ اسمبلی کی قرارداد پیش کرنے سے قبل سنجیدہ اختلافات کا باعث بنی تھی۔

تاہم، انہیں احساس نہیں تھا کہ آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کی مانگ بھی غیر آئینی تھی کیونکہ اس آرٹیکل کا تعلق صرف آئین کی منسوخی سے ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے قرارداد پر بہت سی تقاریر کرکے بھی غلطی کی جس سے ان کے اپنے اندر مزید بے چینی پیدا ہوئی۔

تاہم ایم کیو ایم لندن یہ سمجھنے میں ناکام ہوگئی کہ یہ لندن ہی جو 2013 کے انتخابات کے بعد سے مسلسل پاکستان میں اپنے رہنماؤں کو مشکل پوزیشن میں ڈال رہا تھا۔ سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد بھی اس دوران ایم کیو ایم کا حصہ تھے اور انہیں بھی ایک سے زائد مرتبہ الطاف حسین کی تقریروں کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ایم کیو ایم لندن کو برابر کا میدان نہیں ملا اور اس کی نئی رابطہ کمیٹی ڈاکٹر ظفر عارف، کنور خالد یونس، امجداللہ، اسحاق اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری ایک واضح پیغام تھا کہ کوئی ریلیف نہیں ملے گا، یہاں تک کہ اگر 29 نومبر کو فوج میں کمانڈ کی تبدیلی ہوتی ہے، اس کے بعد بھی نہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں پر شاہانہ طرز زندگی کے الزامات مکمل طور پر جھوٹ نہیں۔ مگر پوری متحدہ کا اس بوجھ کا اشتراک کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ان کے رہنماؤں اور وزراء پر پارٹی کے نام پر پیسے بنانے کا الزام لگایا گیا تو پارٹی اس مسئلے کو حل کرنے میں کیوں ناکام رہی۔

 ایم کیو ایم کے زیادہ تر رہنما جنہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان نہیں آئے۔ اگرچہ، ایم کیو ایم پاکستان نے اب تک پارٹی کے قانون سازوں اور مقامی اداروں پر اپنی گرفت کو برقرار رکھا ہے، مگر یہ اگلے انتخابات میں اس کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے. ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کے درمیان کوئی مفاہمت مشکل ہے۔ 

اسٹیبلشمنٹ کی منظوری کے بغیر الطاف حسین کو قبول کرنے کا مطلب ہے اپنے لیے مشکل کھڑی کرنا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم لندن ابھی تک ستار کے کیمپ میں بڑا شگاف پیدا کرنے کے قابل نہیں۔ لندن کی طاقت مہاجر ووٹر ہو سکتا ہے لیکن کسی بھی تنظیمی کام کی غیر موجودگی اور غیر سرکاری پابندی میں انہیں اگلے انتخابات میں جانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اگلے الیکشن سے پہلے اب بھی وقت ہے۔

مشرف کے تحت ایم کیو ایم کے دھڑوں کو متحد کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیں، ایم کیو ایم کے تجربہ کار حامیوں نے کردار ادا کرنے کے لیے ان سے رابطہ کیا تھا۔ ایم کیو ایم کے بانیوں میں سے ایک سلیم شہزاد نے ایم کیو ایم اور پی ایس پی کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں انہیں کردار ادا کرنے کو کہا۔ لیکن، خواجہ اظہار الحسن کے ساتھ تین گھنٹے کی ملاقات کے بعد مشرف نے انہیں متحد کرنے کی مزید کوششیں ختم کردیں۔

2001 میں بلدیاتی انتخابات کے ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے بعد جماعت اسلامی نے اپنا میئر بنالیا۔ اور 2002 میں بھی اس نے قومی اسمبلی کی سات نشستیں کھو دیں۔ لندن اگر واقعی کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اس کی قیادت کو پاکستان آنا پڑے گا۔ اگر الطاف حسین نہیں تو ندیم نصرت اور مصطفی عزیزآبادی سہی۔ سیاست میں رہنماؤں کو کارکنوں اور حامیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سامنے سے قیادت کرنی پڑتی ہے۔ کیا وہ یہ خطرے مول لے سکتے ہیں اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں جواب مل جائے گاکہ ایم کیو ایم کو ہائی جیک کیا گیا ہے یا بچایا گیا ہے۔