21 نومبر ، 2016
صوبائی خودمختاری کے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے والی 18ویں آئینی ترمیم کے معمار چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے حال ہی میں انتباہ کیا ہے کہ18ویں ترمیم کے تاریخ ساز فیصلے کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے لیکن جس بات کا وہ ذکر نہ کر سکے وہ صوبوں کی جانب سے مقامی بلدیات کو اختیارات کی منتقلی میں ناکامی کا معاملہ ہے، جو ملک میں سیاسی کارکن تیار کرنے والی واحد نرسری ہے۔
یہ ہماری سیاست اور قومی جماعتوں کا مخمصہ رہا ہے کہ جب اداروں کو مضبوط کرنے کا معاملہ آتا ہے تو ان کی اپروچ بہت ہی محدود ہوجاتی ہے۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد جو وزارتیں جیسے تعلیم، صحت اور محنت وغیرہ صوبوں کو منتقل کی گئیں ان کے معاملے میں صوبوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی بہت ضروری ہے اور طرز حکمرانی کو دیکھا جائے تو اس کا معاملہ تو بہت ہی خراب ہےقومی سیاست کے مستقبل کو ’’پنجاب میں کامیابی، پاکستان میں کامیابی‘‘ کے تصور سے باہر نکالنا ہوگا اور اس کے لئے مزید صوبوں کے قیام پر سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب آئندہ برس ممکنہ طور پر مردم شماری کا بھی امکان ہے۔
سن 2013 میں وزیراعظم نواز شریف نے بلوچستان میں قوم پرستوں، خیبرپختونخوا میں اپوزیشن پی ٹی آئی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کی راہ میں حائل نہ ہوکر پاکستان کو بہت ہی مثبت پیغام دیا تھا۔ نواز شریف اب مزید صوبوں اور مقامی حکومتوں کی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے ذریعے جمہوریت کو مضبوط کرنے کا جرات مندانہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اس وقت قومی ہم آہنگی کے لئے اس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر ہم واقعی سارا کھیل تبدیل کرنے میں مخلص ہیں تو چین پاکستان اقتصادی راہداری گیم چینجر بن سکتی ہے۔
آمریت کے خلاف جمہوریت کا تحفظ ایک بات ہے اور ہم سب آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لئے متحد ہیں لیکن یہ سیاسی جماعتیں ہیں جو خود جمہوریت کے اندر لوگوں کو بااختیار بنانے میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں اور جمہوریت کے بنیادی تصور ہی کی نفی کردیتی ہیں ،یعنی ’’عوام کی حکومت عوام کیلئے‘‘۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی کمی اور لوگوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے ان کی اپروچ کی وجہ سے جمہوری ادارے کمزور ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ 1973کا آئین جو متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا 1977 ،1999 اور پھر 2007میں بھی اتنا مضبوط نہیں ہو پایا کہ خود کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ناکام بناسکے۔
سیاسی جماعتوں میں اتنا بھی حوصلہ نہیں تھا کہ وہ جنرل ضیا الحق کی غیر قانونی پارلیمنٹ، مجلس شوریٰ کی جانب سے منظور کردہ متنازع ترامیم کو چیلنج کو کر سکیں، زیادہ سے زیادہ جو یہ سیاسی جماعتیں کر سکیں وہ ’’اٹھاون ٹوبی‘‘ کا خاتمہ تھا اور وہ بھی چاروں حکومتوں کی برطرفی کے بعد۔ آج 1973کا آئین اپنی اصل حالت میں نہیں بلکہ مسخ شدہ ہے کیونکہ کمزور اور غیر جمہوری قومی جماعتیں جو فوجی آمروں کے ساتھیوں پر مشتمل ہیں تاریخی غلطی کو درست نہیں کر سکیں۔
ان سب کے نتیجے میں قومی سیاست ناکام ہو گئی کیونکہ تمام سیاسی نرسریوں اور ٹریڈ یونینز کو تباہ کر دیا گیا اور پارلیمنٹ تنظیم سازی اور معلومات کے حصول (رائٹ آف انفارمیشن)کے حق کو بحال نہ کر سکیں یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم صوبائی خود مختاری کے مسئلے کو حل کیے بغیر اکثریتی صوبے سے محروم ہو گئے۔ غالباً ہم نے ماضی کی ناکامیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اب بھی جاگیرداری ، سرداری نظام کا دفاع کرتے ہیں یہاں تک کہ قومی سطح کے کچھ رہنما اپنے علاقوں میں مسائل کے حل کیلئے جرگے کے تصور کا دفاع اور اس پر عملدرآمد کراتے ہیں۔ اگر ہمیں پشتونوں کی جانب سے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے مطالبے کو تسلیم کرنے میں 65برس کا عرصہ لگا اور اس سے پختونوں کی زندگی میں کوئی بہتری نہیںآئی، تو صوبائی مختاری کے مسئلے کو حل کرنے میں 60برس کا عرصہ لگا اور کسی کو نہیں معلوم کہ لوگوں کو بااختیار بنانے کے بعد مزید صوبوں کا مسئلہ کرنے میں کتنا وقت لگے گا۔
سن 1947میں قیام پاکستان کے وقت پاکستان مسلم لیگ کے علاوہ ملک میں بمشکل ہی کوئی سیاسی جماعت قومی کردار کی حامل تھی، پاکستان مسلم لیگ مختلف دھڑوں میں بٹ گئی اور اس کے نتیجے میں جمہوری نظام کا ارتقا نہ ہو سکا۔ پاکستان کے ٹوٹنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ ملک میں بالخصوص ون یونٹ کے بعد کوئی قومی سیاسی جماعت موجود نہیں تھی اگر ہم تین بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے ڈھانچے پر ایک نظر ڈالیں تو انہیں چاروں صوبوں کا حقیقی نمائندہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہمارے سیاسی کلچر میں اس رجحان کی وجہ سے قوم پرست جماعتیں ابھر کر سامنے آئیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی اپنی ساخت میں نسلی اور غیرجمہوری تنگ نظر قوم پرست بن گئیں، جس کے نتیجے میں وہ رائے دہندگان میں اپنی جڑیں نہیں بنا سکیں۔
ایسی زیادہ تر جماعتیں پریشر گروپ کا کردار ادا کرتی ہیں جس طرح کئی مذہبی جماعتوں کا کردار ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ میں زیادہ تر قوم پرست جماعتیں دائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کی وجہ سے وجود میں آئیں۔ اگر نیپ پر پابندی نہ لگتی تو اس میں قومی جماعت بننے کے امکانات موجود تھے۔ مہاجر قوم پرستی یا اس کی سیاسی ڈائنامکس کی وجہ بھی شہری سندھ میں سیاسی جماعتوں کی ناکامی اور قومی سیاست کی عدم موجودگی ہے۔ تاریخ بہترین جج ہے اور بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہم نے ون یونٹ کا نتیجہ دیکھ لیا تھا، جس کا حتمی نتیجہ پاکستان کے ٹوٹنے کی صورت میں برآمد ہوا۔ دائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی اپنے قومی کردار، قومی جماعت اور بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) میں اپنی مضبوط موجودگی کے باوجود مرکز میں اس وجہ سے حکومت نہ بنا سکی تھی کہ مشرق پاکستان اور پنجاب میں اس وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ جنرل ضیا نے ایک جانب قومی جماعتوں کو سکیڑ دیا اور لسانی اور فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دیا اور دوسری جانب غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے ہمارے قومی کردار کو مزید تقسیم کر دیا۔ پیپلز پارٹی نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی بلکہ اسے تنہا کرنے کی سوچی سمجھی سازش کی وجہ سے بھی شدید متاثر ہوئی۔
بینظیر بھٹو کے قتل اور پھر ان کے بعد پیپلز پارٹی کی سیاست نے بھی اس جماعت کو مزید سکیڑ دیا۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی خلا کو عمران خان اور پی ٹی آئی نے پُر کیا لیکن گزشتہ تین سال کے دوران عمران خان سندھ اور خاص طور پر بلوچستان میں اپنی پوزیشن کو مضبوط نہیں کر سکے اور اگلا انتخاب پنجاب میں ان کی مضبوطی کا تعین کر دے گا۔ ان کی مقبولیت اب بھی خیبرپختونخوا میں ہے اور اس سے دلچسپ منظر نامہ پیدا ہوا ہے۔
اگر پی ٹی آئی پنجاب میں مکمل کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو اس سے نواز شریف کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ پاکستان مسلم لیگ کے پاس کسی اور صوبے میں کامیابی کا موقع نہیں ہے لیکن اگر پاکستان مسلم لیگ نواز چند سیٹیں ہارنے کے باوجود اپنی پوزیشن برقرار رکھتی ہے تو وہ مرکز میں حکومت بنانے کے قابل ہو گی لیکن خواہ کچھ بھی ہو قومی بحران برقرار رہے گا اور جب تک پاکستان مسلم لیگ نواز ،پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں چاروں صوبوں میں اپنے سیاسی ڈھانچے میں وسعت پیدا نہیں کرتیں اس وقت تک سیاسی جماعتیں صوبائی خود مختاری اور 58ویں آئینی ترمیم کے باوجود احساس محرومی کو ختم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتی رہیں گی۔
قومی اکائیوں کو مزید صوبے بنا کر بااختیار بنانا چاہیے،جس سے ہماری قوم پرست جماعتوں کی تنگ نظر قوم پرستانہ اپروچ کو بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ کیا ہمارے پارلیمنٹینرز اور نام نہاد قومی جماعتیں اس غیر حل شدہ قومی سوال کو حل کر کے جمہوریت کو بچانے کیلئے کچھ جرأت مندانہ اقدامات اٹھا سکتی ہیں۔