بلاگ
24 نومبر ، 2016

ڈاکٹر عاصم کو منتخب کرنے کے پس پردہ سیاست

ڈاکٹر عاصم کو منتخب کرنے کے پس پردہ سیاست

 سابق صدر آصف علی زرداری نے یاروں کا یار ہونے کے اپنی ساکھ کو برقرار رکھا ہےلیکن اس روش سے پاکستان پیپلز پارٹی کو فائدہ ہوا یا نقصان پہنچا۔ بے نظیر بھٹو کے بعد پارٹی کی مقبولیت میں کمی سے اس طرز سیاست میں خامیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔

انہوں نے اپنے اسکول کے دنوں کے دوست ڈاکٹر عاصم حسین کو پی پی پی کراچی ڈویژن کا صدر تو بنادیا۔ لیکن اس فیصلے کو پارٹی کے اندر یا جن سے اس کا تعلق ہے دونوں جگہ اچھی نظر سے نہیں دیکھا جائے گا،جب کہ بلاول بھٹو کو بھی پارٹی کی تنظیم نو میں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ لہذا صدر زرداری جو کچھ بھی پیغام دینا چاہتے ہیں، یقینی طور پر نہ ہی پارٹی کو نہ ہی انہیں اس سے کوئی مدد ملے گی۔

ایک سال قبل سینئر پی پی پی رہنماؤں نے انہیں کوئی عہدہ نہ رکھنے کا مشورہ دیا تھامگر وہ دوبارہ اپنے بیٹے بلاول بھٹو کے ساتھ پارٹی کی قیادت سنبھالنے واپس آرہے ہیں بلکہ پارٹی میں اور سندھ حکومت میں اپنے قریبی دوستوں کو بھی لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین سے متعلق یہ فیصلہ دو وجوہات کی بنا پر حیرت انگیز تھا۔

 اول یہ کہ بلاول بھٹو نے کراچی ڈویژن کے صدر کے لیے جب پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کی تو ان کا نام نہیں لیا گیا، اور دوسری بات، وہ اب بھی جیل میں ہیں اور غیر سیاسی الزامات کا سامنا ہے جو اگرچہ جھوٹے ہو سکتے ہیں لیکن اب بھی مصیبت ٹلی نہیں ہے. صدر زرداری کا پیغام ہے کہ میں اپنی تمام ٹیم کے ساتھ واپس آ گیا ہوں، اب، اس رجائیت کا فائدہ ہوتا ہے یا پھر کراچی آپریشن پلان اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہ ہونے کی صورت میں نقصان ہوتا ہے۔

سیاست میں ابتدائی دنوں سے ہی یہ زرداری کی سیاست کا انداز ہے، جب وہ غیر متعلقہ شخص تھے۔ انہوں نے اپنی سیاسی چالوں سے بہت سے لوگوں کو حیران کیا اور تمام تر تنازعات کے باوجود مدت پوری کرکے اقتدار دوسری جمہوری حکومت کے حوالے کرنے والے پہلے سویلین حکمران بن کر ریکارڈ قائم کیا۔

باخبر ذرائع نے انکشاف کیا آنے والے ہفتوں میں ایسے مزید اقدامات نظر آسکتے ہیں۔ سینیٹر سعید غنی اور ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا، جنہیں ابھی جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری اطلاعات کراچی ڈویژن کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، صدر اور جنرل سیکرٹری کے طور پر زیادہ بہتر انتخاب ہوسکتے تھے۔ ڈاکٹر عاصم بھی پی پی پی اور مسلم لیگ کے درمیان سمجھوتے کے نتیجے میں گورنر سندھ کے امیدوار بن سکتے ہیں، اگر سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کی صحت بہتر نہ ہوسکی تو۔

ʼپاناما کیس کے حتمی نتائج سے قطع نظر صدر زرداری سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل کریں گے۔ ڈاکٹر عاصم کو اب شک کا فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ تقریبا 18 ماہ کے بعد بھی ان کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے گئے خاص طور پر دہشت گردی کی مالی امداد کے معاملے میں۔

زرداری جانتے ہیں کہ اگلے انتخابات میں پنجاب یا خیبر پختون خوا میں انہیں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملنے والی، اس لیے وہ بہتر سودے بازی کی پوزیشن حاصل کرنے کےلیے سندھ میں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ضمانت پر رہائی کے بعد ڈاکٹر عاصم وزیراعلی سندھ کے مشیر کے طور پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ صدر زر د ار ی کی واپسی سے پہلے پارٹی اور سندھ حکومت کے اندر کچھ اور فیصلے بھی ہوسکتے ہیں۔

زرداری اب جنوری 2017 سے احتجاج بمع انتخابی مہم کی قیادت کے لئے تیاری کررہے ہیں۔ وہ پاکستان میں آمد سے پہلے اپنے تمام پسندیدہ لوگوں کو رہا اور تمام عہدوں پر بحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایس ایس پی راؤ انوار کو بحال کر دیا گیا۔ نثار مورائی، فشریز کے سربراہ بھی ضمانت پر رہا ہوگئے۔

رپورٹ کے مطابق منظور کاکڑ بھی واپس سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ بن جائیں گے۔ یہ صورتحال وزیر اعلی سید مراد علی شاہ کے لئے مشکل ہو سکتی ہے جنہوں نے اب تک اپنے پیشرو کے مقابلے میں زیادہ بہتر شہرت حاصل کی ہے۔ رپورٹوں کے مطابق سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن بھی نہ صرف واپس پاکستان میں ہوں گے بلکہ اویس مظفر ٹپی سمیت سندھ کابینہ میں بھی شامل ہوں گے۔

عاصم کی تقرری کا وقت سیاسی اہمیت کا حامل ہے۔ سینئر صحافی حامد میر کے ساتھ انٹرویو میں پیپلز پارٹی کے رہنما پہلے کے مقابلے میں زیادہ پراعتماد دکھائی دئیے۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں یہ تمام پیش رفت ہوئیں تو کراچی آپریشن پر کئی سنجیدہ سوالات اٹھیں گے اور آپریشنل حکام کو ایم کیو ایم پاکستان اور لندن کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہوگا۔

سندھ رینجرز نے ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر بہت سخت موقف اختیار کیا تھا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے انہیں جیٹ بلیک قرار دیا تھا جو سب سے زیادہ خطرناک مجرموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اقدام کراچی آپریشنʼ کو متاثر کر سکتا ہے کیونکہ یہ آپریشنل حکام کے لئے کافی شرمندگی کا سبب ہوگا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجرم ثابت ہونے تک کوئی بھی شخص بے قصور ہوتا ہے۔ اور ڈاکٹر عاصم حسین نے جے آئی ٹی اور میڈیا کو لیک اپنے اعترافی بیان کی ویڈیو پر اعتراض کیا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کا تقرر پارٹی کی اکثریت کی مرضی کے خلاف تھا۔ خود انہوں نے پارٹی کے ردعمل کے بارے میں شکایت کی تھی۔ یہاں تک کہ مجھ سے بھی انہوں نے ایک بار کہا کہ شاید سندھ حکومت کے اندر کچھ رہنماؤں کا ان کی گرفتاری میں اہم کردار تھا۔

چند ہی پارٹی رہنما اور صوبائی حکومت کے وزرا یا مشیر عدالت میں یا ہسپتال میں ان سے ملنے گئے۔ پھر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو خود وزیر اعلی سید قائم علی شاہ کے ساتھ ان کی عیادت کے لیے جناح اسپتال گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دبئی کے مشہور اجلاس میں زرداری نے پارٹی رہنماؤں سے ناراضی کا اظہار کیا تھا اور خاص طور پر عاصم کی گرفتاری پر پیپلز پارٹی کے سرد ردعمل کا ذکر کیا۔

 اس پر چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے الزامات پر ان کی گرفتاری کی مذمت کریں گے مگر بدعنوانی پر نہیں۔ ان کی گرفتاری کے خلاف یا ان کی رہائی کے لئے ایک مظاہرہ بھی نہیں ہوا۔ اس طرح زرداری نے بلاول بھٹو کے ذریعے اب ڈاکٹر عاصم کو سیاسی ملکیت بھی دے دی ہے۔ اس عہدے کے لیے ان کا نام تین اس امیدواروں میں شامل نہ تھا جن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اگرچہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو کسی کا بھی نام دینے کا استحقاق ہے مگر ڈاکٹر عاصم حسین کے انتخاب کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ آیا صدر زر دا ری نے ڈاکٹر عاصم حسین کو نوازا ہے یا  سیاسی ڈھالʼ فراہم کی ہے۔ یا پھر 2018 کے انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں زیادہ اہم کردار تفویض کیا ہے۔ صدر زرداری نے اپنے مبینہ ساتھیوں کے خلاف کارروائی اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیان کے بعد پاکستان چھوڑ دیا تھا۔ اور آخر میں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری نے وفاق اور سندھ کے درمیان اختلافات کو مزید بڑھایا۔

ڈاکٹر عاصم اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بک میں نہیں ہیں اور جہاں تک ʼکرا چی آپریشنʼ کی سمت کا تعلق ہے تو اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی جہاں تک پارٹی کے اندر امور کا تعلق ہے تو یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ پی پی پی کے کارکنوں اس اقدام کی حمایت اور اسے قبول کرتے ہیں یا نہیں۔