بلاگ
25 نومبر ، 2016

عمران کا فیصلہ کن سیاسی داؤ

عمران کا فیصلہ کن سیاسی داؤ

  عمران خان نے وکلا اور ٹی وی میزبانوں پر مشتمل اپنی نئی ٹیم کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس کی جنگ سپریم کورٹ اور میڈیا دونوں محاذوں پر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ بابر اعوان، نعیم بخاری اور فواد چوہدری کی ٹیم بنا کر عمران نے صاف اشارہ دیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے باہر بھی یہ جنگ زیادہ جارحانہ انداز میں لڑنا چاہتے ہیں، جس کی حامد خان نے مخالفت کی تھی۔

نعیم بخاری ،بابر اعوان، فواد چوہدری تینوں مشہور ٹی وی میزبان اور تجزیہ کار ہیں۔ اب جب حامد خان باہر ہوگئے ہیں اور نعیم الحق کو بھی پیچھے کردیا گیا، اس سے عمران کی اس کیس میں بے چینی صاف نظر آتی ہے۔ اس حکمت عملی کی کامیابی کا انحصار سپریم کورٹ کی سماعت کے نتائج پر ہے اور سب کو 30 نومبر کی اگلی سماعت کا انتظار ہے۔

عمران کے اپنے ترجمان اور پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نعیم الحق کے کردار کو کو غیر اہم کردیا گیا ہے۔ عمران کی حکمت عملی یہ ہے کہ مسئلے کو زندہ رکھا جائے اور سپریم کورٹ سے مواقف فیصلہ نہ آنے پر بھی نئی ٹیم عدالت کے باہر برتری حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ آخری سماعت پر عمران کو مایوسی ہوئی جس کے بعد حکمت عملی تبدیل کی گئی۔

بابر اعوان اور فواد چوہدری کے پی پی پی سے بھی گہرے مراسم ہیں اور وہ دونوں جماعتوں میں اختلاف بھی ختم کرسکتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے فواد کو خیر سگالی کا پیغام بھی بھیجا ہے۔ عمران نے بابر اعوان کو چوہدری اعتزاز احسن پر فوقیت دی حالانکہ وہ عمران کو مفت قانونی مشورے دیتے رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق عمران ذاتی طور پر اعتزاز احسن کے حق میں تھے، مگر ان کے مشورے کے مطابق کیس کو پارلیمان میں مشترکہ اپوزیشن کے تحت لڑنے کے حق میں نہ تھے۔ الیکشن سے قبل یہ عمران کی فائنل اننگ ہے۔ عمران کے پارٹی میں بھی اختلافات ہیں کیونکہ حامد خان نے جہانگیر ترین و دیگر کے خلاف فیصلے میں پارٹی کے سابق الیکشن کمشنر جسٹس (ر) وجیہہ الدین کی حمایت کی تھی۔

حامد خان کی کیس سے علیحدگی کے بعد عمران نے کہا کہ میں نے کمزور ٹیموں کے ساتھ بھی بڑے میچ جیتے ہیں۔ حامد خان چاہتے تھے کہ کیس سیاسی طور پر نہیں پیشہ ورانہ طور پر لڑا جائے۔ ماضی کے اختلافات کی وجہ سے بابر اعوان کا انتخاب آسان فیصلہ نہ تھا۔ بابر اعوان سوئس اکاؤنٹس کیس میں زرداری اور بے نظیر بھٹو کا دفاع کرچکے ہیں۔ اگر کسی نے پریس کانفرنس میں سوئس اکاؤنٹس کا سوال پوچھ لیا تو کیا ہوگا۔ عمران کو بابر اعوان کا جارحانہ انداز پسند ہے لیکن کیا اس کا فائدہ ہوگا۔

بابر اعوان سابق صدر زرداری کے بھی قریب ہیں۔ کیا انہوں نے زرداری کو پاناما کیس پر اعتماد میں تو نہیں لیا۔ وہ دونوں رہنماؤں میں مصالحت بھی کراسکتے ہیں مگر کس قیمت پر۔ عمران تو سمجھتے ہیں کہ زرداری اور نواز شریف دونوں نے ملک کو لوٹا ہے۔ مگر بابر جانتے ہیں کہ زرداری میں بہت لچک ہے اور وہ بوقت ضرورت عمران سے ملنے سے گریز نہیں کریں گے۔ عمران کیلئے مشکل یہ ہوگی کہ ان کے وکیل کو نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس کو ثابت کرنا ہوگا، اس تاثر کی حمایت کے بغیر کہ نواز اور زرداری دونوں کرپٹ ہیں۔

عمران کے شادی کے ریکارڈ کی طرح ان کا سیاسی ریکارڈ بھی تنازعات سے بھرپور ہے۔ ویسے پی ٹی آئی نے بابر اعوان کو وکیل کرکے خطرہ بھی مول لیا ہے کیونکہ عدلیہ سے ان کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ کیس کی پہلی سماعت سے پتہ چل گیا تھا کہ عمران حامد خان سے خوش نہیں اور وہ بہت بے چین نظر آئے کہ عدالت نے روزانہ سماعت کیوں شروع نہیں کی لہذا حامد کی علیحدگی کی اصل وجہ میڈیا ہے یا پی ٹی آئی۔ بظاہر پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم اگلی سماعت میں تین کام کرسکتی ہے۔

جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی مخالفت اور بنچ سے کیس کی سماعت کی درخواست۔ عدالت سے قطر کے شہزادے کو طلب کرنے کی درخواست۔ سیف الرحمٰن سے تعلق رکھنے والے ایل این جی کیس دوبارہ کھولنے کی درخواست۔ حامد خان کو میڈیا سے شکایت نہیں ہونی چاہیے جس نے پاناما لیکس میں عمران کا ساتھ دیا بلکہ بعض لوگ تو صحافی کی بجائے جج بن گئے۔

حامد خان یہ دیکھیں کہ پارٹی نے انہیں پریس کلیپنگ، ٹاک شوز اور ایک کتاب کے اقتباسات کے سوا کچھ دیا ہی نہیں۔ پی ٹی آئی نے پاناما پیپرز کو قومی مسئلہ بنایا ہے، ایسے میں اگر وہ کیس ہار گئے تو کیا ہوگا۔

پی ٹی آئی پھر کس پر سیاست کرے گی یا آیا توپوں کا رخ پی پی پی کی طرف کرے گی۔ اس کیس میں پی ٹی آئی اب دوراہے پر ہے۔ شکست کا مطلب ہوگا تین سال سے لیے گئے غلط فیصلوں کے بھاری بوجھ میں مزید اضافہ جس میں زیادہ تر قصور حکمت عملی کا تھا۔