بلاگ
30 نومبر ، 2016

پیپلزپارٹی بھٹو سے بلاول تک

پیپلزپارٹی بھٹو سے بلاول تک

 پیپلزپارٹی کو تمام تر مثبت و منفی تنقید سے قطع نظر اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہئے کہ وہ سیاست کو ڈرائنگ رومز سے نکال کر عوام میں لے آئی اور تمام تر مشکلات کے باوجود زندہ بھی رکھا ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی آج 30نومبر کو اپنی گولڈن جوبلی مکمل کر لے گی لیکن اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا بلاول بھٹو زرداری میں2018ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو کامیابی دلانے کی صلاحیت ہے؟ پارٹی کی بنیاد ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ڈالی۔ یوم تاسیس پر ہو سکتا ہے بلاول انتخابی سیاست میں اپنے داخلے کا اعلان کریں۔

وہ لاڑکانہ سے اپنی والدہ مرحومہ بینظیر بھٹو کی نشست پر انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ اس طرح قومی اسمبلی میں وہ کم عمر ترین اپوزیشن لیڈر بن جائیں گے تاکہ وہ آئندہ عام انتخابات سے قبل پارلیمانی سیاست کا تجربہ حاصل کر لیں۔ ذوالقار علی بھٹو کی تیسری نسل سے بلاول کے لئے موجودہ حقائق کے ساتھ پارٹی کی نظریاتی اساس کو بحال کرنا بڑا چیلنج ہو گا۔ پیپلزپارٹی کی بھٹو سے بینظیر اور پھر آصف علی زرداری سے بلاول کو منتقلی تک پارٹی نے بڑے عروج و زوال دیکھے۔

بلاول کے لئے سب سے بڑا چیلنج پیپلزپارٹی کی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کھوئی مقبولیت بحال کرنا ہے۔ یہ مقبولیت فی الحال مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان تقسیم ہے۔ اس کے باوجود پارٹی قیادت سنجیدگی اختیار کرے تو محنت کشوں، کسانوں، اقلیتوں اور خواتین میں پیپلزپارٹی کے لئے گنجائش اب بھی موجود ہے۔ پیپلزپارٹی نے سندھ میں طرز حکمرانی کی کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی۔ بھٹو کی پھانسی سے بینظیر کے قتل تک پیپلزپارٹی کو مٹانے کے لئے بڑی سازشیں کی گئیں۔

سن 1988ء میں پیپلزپارٹی کی بھرپور انتخابی کامیابی کو گھٹانے کے لئے آئی جے آئی کو تشکیل دیا گیا۔ ان کی پہلی حکومت ختم کرنے کے لئے معروف زمانہ ’’مڈنائٹ جیکال‘‘ کا منصوبہ بنایا گیا پھر انتخابی دھاندلیوں کے لئے مہران بینک اسکینڈل سامنے آیا، اس کے باوجود پیپلزپارٹی خود اپنی خراب کارکردگی کا شکار ہونے سے قبل سارے وار سہہ گئی۔ جب پیپلزپارٹی بھٹو سے زرداری کو منتقل ہوئی تو2008ء میں انتخابی کامیابی کے باوجود اس کے لئے مشکلات کا آغاز ہو گیا۔

زرداری کے بارے میں جو تاثر پایا جاتا ہے اس سے ہٹ کر انہیں یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ان ہی کے دور صدارت میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی آئینی مدت مکمل کی اور پھر صدارتی اختیارات کی پارلیمنٹ کو منتقلی کے لئے آئندہ نسلوں کے لئے ایک نظیر قائم کی۔ بلاول نے پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس پر30 نومبر تا 5 دسمبر ہفت روزہ جشن کا اعلان کیا ہے۔ اس موقع پر وہ لاڑکانہ سے اپنی والدہ کی نشست پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا بھی اعلان کر سکتے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے بنیادی رکن ڈاکٹر مبشر حسن گو کہ پارٹی چھوڑ چکے ہیں لیکن انہیں یوم تاسیس کی تقریبات میں مدعو کیا جانا چاہئے۔ بھٹو کی سیاست تین بنیادی اصولوں سامراجیت کا خاتمہ، خودانحصاری اور اقتصادی آزادی کے گرد گھومتی ہے۔ وہ سیاست کو عوام میں لے آئے۔ ہزاروں افراد پابند سلاسل ہوئے، کوڑے کھائے، پھانسی پر چڑھے اور کچھ نے تو خودسوزی بھی کی۔ یہ دنیا کی حالیہ سیاسی تاریخ میں نادر مثالیں ہیں۔

پیپلزپارٹی کی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے، جمہوری استحکام میں اس کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ غیرمعمولی کردارخصوصاً بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد کمزور پڑ گیا۔ پیپلزپارٹی پانچ سال اقتدار میں رہی لیکن اپنی لیڈر کے قتل کا مقدمہ حل نہیں کر سکی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے پاکستان کے سیاسی محرکات کو بالکل تبدیل کر دیا۔ ملک کو پھر ایسا کوئی رہنما نہیں ملا جو چاروں صوبوں میں یکساں مقبولیت کا حامل ہو حتیٰ کہ بھٹو کے بدترین ناقدین بھی کرپشن کی آلودگی سے ستھرا شفاف سیاستداں قرار دیتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو پہلا متفقہ آئین دیا، آزاد خارجہ پالیسی دی، اسلامی بلاک کو متحد کیا اور ناوابستہ ممالک کی تحریک میں تاریخی کردار ادا کیا، ملک کو ایٹمی پروگرام دیا، مشرق وسطیٰ میں ہزاروں پاکستانیوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے۔

ملک کی پہلی بھاری صنعت پاکستان اسٹیل کا قیام عمل میں لایا گیا، ان کی حکومت پر جو تنقید ہوتی ہے وہ ذرائع ابلاغ پر قدغن، متنازع اقتصادی پالییوں اور 1977ء میں قبل از وقت عام انتخابات کے غلط فیصلے پر ہوتی ہے۔ باقی کا تعلق امریکا کی قیادت میں ہونے والی سازشوں سے جڑتا ہے لیکن میرے نزدیک ان کی سب سے بڑی غلطی جاگیرداروں سے مفاہمت کی پالیسی رہی جس کی وجہ سے جے اے رحیم، محمود علی قصوری، معراج محمد خان، بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد مرحوم اور ڈاکٹر مبشر حسن جیسے رہنما دور ہوتے چلے گئے۔

بینظیر بھٹو نے اپنے والد کے مشن کو زندہ رکھا۔ وہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف مضبوط آواز بن گئیں۔ نتیجے میں انہوں نے اپنے کئی دشمن بھی بنا لئے۔ بالاخر 27 دسمبر2007ء کو وہ خود راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دہشت گردی کا شکار ہو گئیں۔

انہوں نے1986ء میں اپنی وطن واپسی اور 1988ء کے عام انتخابات کے موقع پر آمر وقت سے مفاہمت کی وجوہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے وقت جب بھٹو کی پھانسی کا واقعہ تازہ ہے اور ہزاروں کارکن پابند سلاسل ہیں، میں ایک عورت کی حیثیت سے ان کے لواحقین کے مصائب اور آلام کو سمجھتی ہوں اور میں نے اپنے کارکنوں کی سہولت اور آسانیوں کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی۔ بیگم نصرت بھٹو بدقسمت ترین سیاسی رہنما رہیں، تمام سانحات ان کی نظروں کے سامنے ہوئے اور انہوں نے بڑی ہمت اور حوصلے سے برداشت کیا۔ کال کوٹھری میں پھانسی سے48 گھنٹے قبل بھٹو سے نصرت بھٹو کی ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سعید مہدی نے بتایا تھا دوران ملاقات بینظیر بھٹو نوٹس لیتی اور بیگم نصرت بھٹو زاروقطار روتی رہیں۔ آصف علی زرداری نچلی سطح پر پیپلزپارٹی کی مقبولیت برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔ اپنے بیٹے بلاول کے لئے انہوں نے ورثے میں مشکلات چھوڑی ہیں، انہیں بدحکمرانی اور کرپشن کے الزامات کا اضافی بوجھ بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔