بلاگ
05 دسمبر ، 2016

بلاول کے خواب اور امکانات

بلاول کے خواب اور امکانات

 پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ کی سیٹ لاڑکانہ این اے 207سے الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے بہت اچھا کیا۔ اس وقت یہ سیٹ فریال تالپور کے پاس ہے جنہیں سینیٹ بھیجا جاسکتا ہے۔

مگر بلاول کا وزیراعظم بننے کا خواب قبل از وقت اور غیر حقیقت پسند ہے۔ ویسے بھی اس کے لیے عمر کی حد بھی ہے۔ سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہےاور پھر جب آصف زرداری کے ہاتھ میں معاملات ہوں، مگر شاید بلاول کا غیر معقول بیان انہیں بھی پسند نہیں آیا ہوگا۔

بلاول کو اندازہ ہے کہ پی پی پی صرف سندھ تک محدود ہے، ن لیگ کے پاس پنجاب اور پی ٹی آئی کے پاس خیبر پختون خوا کا پورا کنٹرول ہے جب کہ بلوچستان بہت زیادہ تقسیم ہے۔

2008 میں زرداری نے حیران کردیا تھا جب پی پی پی سادہ اکثریت کے ساتھ اپنا صدر، وزیر اعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ لے آئی تھی۔ مگر اس کے لیے بھی بلاول کو پنجاب اور کے پی سے چند سیٹیں تو جیتنی ہوں گی۔

حالات معمول پر ہیں، الا یہ کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم کے خلاف کوئی فیصلہ آجائے۔ 2013 کے الیکشن کے بارے میں زرداری نے بھی غلط اندازہ لگایا اور باالخصوص پنجاب میں پی ٹی آئی سے زیر ہوگئے۔

مگر تین سال سے وہاں پی ٹی آئی کی کارکردگی بھی خراب ہے جو وہاں مقامی اداروں اور کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات اور ضمنی انتخابات بھی ہار گئی ہے۔ عمران کی آخری امید سپریم کورٹ میں پاناما کیس ہے، جس کا وہ جلد از جلد فیصلہ چاہتے ہیں۔

عدالت نے کمیشن بنایا تو انہیں مایوسی ہوگی کیونکہ وہ کم از کم تین ماہ لے گا یعنی مارچ 2017 تک، جب کہ وہ جلد از جلد نواز شریف کی نااہلی چاہتے ہیں۔ اپیل کا وقت لگالیں تو اور طویل عرصہ ہوگا۔

پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ پی پی پی بھی نہیں چاہتی جو اگلے الیکشن میں ن لیگ اور پی ٹی آئی میں سیٹوں کی تقسیم چاہتی ہے۔ زرداری نمبر گیم کھیلیں گے۔ وہ سندھ میں اپنے پوزیشن کو مزید مضبوط اور جنوبی پنجاب سے باالخصوص چند سیٹیں نکالنا چاہیں گے۔

انہوں نے ممکنہ اتحادیوں کا بھی اندازہ کرلیا۔ پاناما کیس میں فتح ملی تو پی ٹی آئی پنجاب میں اپ سیٹ کرسکے گی۔ پھر شاید ن لیگ اور پی پی پی کا اتحاد بنے کیونکہ عمران سیٹ ایڈجسمنٹ نہیں کریں گے۔

بلاول کو منقسم اسمبلی سے فائدہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، اے این پی، این پی اور ایم کیو ایم پر مشتمل بڑا اتحاد۔ بلاول جب پنجاب کا دورہ کریں گے تو انہیں صحیح حالات کا اندازہ ہوگا، جو وزیراعظم بننے کا اعلان کرتے وقت نہ تھا۔ ہفتے بھر کے پی پی پی کے یوم تاسیس سے کوئی ٹھوس چیز سامنے نہیں آئی ہے۔

بلاول نے یہ بھی کہا کہ پی پی پی چاروں صوبوں میں حکومت بنائے گی، وہ اور ان کے والد ہی جانتے ہوں گے ایسا کیسے ہوگا۔ آزاد کشمیر الیکشن سے پہلے میری ان سے ملاقات ہوئی تب بھی وہ اتنے ہی پراعتماد تھے اور جب میں نے کہا کہ چار پانچ سیٹیں بھی جیت لیں تو خوش نصیبی ہوگی تو انہیں بڑی حیرت ہوئی تھی۔

اگر پاناما کے تناظر میں 2017 میں الیکشن ہوئے تو وزیراعظم بننے کے لیے عمران کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہوگی، مگر فیصلہ حق میں نہ آنے سے الیکشن میں امکانات تاریک ہوجائیں گے۔

جہاں تک بلاول کا پی پی پی کو ایک آزاد خیال اور سیکولر پارٹی بنانے کا تصور ہے جس پر وہ دائیں بازو کی تنقید کی زد میں بھی آئے۔ تو پیپلز پارٹی ہر طرح سے لبرل پارٹی ہے۔

مگر اس نے سیا سی سمت کے ساتھ ساتھ انتخابات بھی ہار دیے جب ʼروٹی ، کپڑا اور مکان کی بنیاد پر اصولی سیاست ترک کی اور گڈ گورننس بھی ناکام ہوگئی۔

زرداری بے نظیر کی برسی سے قبل پاکستان آنے کے بعد سیاسی سرگرمیاں شروع کریں گے، جس میں وہ بلاول کی امیدواری کا اعلان اور ان کے انتخابی منصوبے کی حمایت بھی کرسکتے
ہیں۔

زرداری انتہائی شاطر سیاست دان ہیں اور ان کے ذہن میں یقینا کوئی منصوبہ ہوگا، جس پر خود ساختہ جلاوطنی میں عمل کررہے ہیں۔

اگرچہ انہوں نے کہا کہ ʼمیں جلاوطن نہیں ہوں.ʼ الیکشن جیتنے پر زرداری نے نواز شریف کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا تھا کہ میاں صاحب آپ اپنی مدت پوری کریں گے اور ہم سیاست کریں گے۔ مگر اس بیان کو پارٹی میں اچھا نہیں سمجھا گیا کیونکہ فرینڈلی اپوزیشن کا تاثر گیا، جب کہ جارحانہ انداز ہونا چاہیے تھا۔

پی پی پی حکومت نے ججوں کی بحالی میں تاخیر کی جس کے بعد ن لیگ نے وکلا تحریک کو ہائی جیک کرلیا تھا۔ زیادہ تر سیاسی پنڈتوں نے ن لیگ اور پی ٹی آئی کی وجہ سے اگلے الیکشن میں پنجاب میں پی پی پی کے احیا کو خارج از امکان اور بلاول  کے بیان کو خواب قرار دیا ہے۔ دیکھتے ہیں آیا یہ خواب پورا ہوگا۔