بلاگ
10 دسمبر ، 2016

2016 پاناما کا سال

2016 پاناما کا سال

 2016 کو پاناما کا سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے سال سے نیا بنچ نئے چیف جسٹس کے ساتھ کیس کی سماعت کرے گا۔ بظاہر حکمراں جماعت کو کچھ سکون کا سانس لینے کا موقع ملا ہے اور عمران خان کے لیے سبق پوشیدہ ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی اور بیٹوں، سیاستدانوں اور تاجروں سمیت تقریبا 600 دیگر پاکستانیوں کے نام سامنے آنے سے یہ بڑا مسئلہ بن گیا خاص طور پر اپوزیشن کے لیے مگر الیکشن دھاندلی کی طرح یہ کیس بھی عمران کے ہاتھ سے نکل گیا، اگرچہ پورا نہیں مگر جلد بازی کی وجہ سے جلد نتائج حاصل نہ ہوئے۔ 8 ماہ سے سیاست پاناما کے گرد گھوم رہی ہے جس کا سہرا عمران کے سر ہے۔

وزیراعظم پر دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ انہیں تین خطابات کرنے پڑے۔ وہ مستعفی ہو کر کسی قابل اعتماد آدمی کو وزیراعظم بنا کر اور عدالتی عمل سے اپنے خاندان کو بری کراکر واپس آسکتے تھے۔ وہ نازک وقت تھا، نئے آرمی چیف کا فیصلہ بھی کرنا تھا، جب سول ملٹری تعلقات بہترین نہ تھے، جس کی وجہ سے نواز شریف نے یہ آپشن استعمال نہ کیا۔

عمران کے سپریم کورٹ جانے سے وزیراعظم اور ن لیگ پر دباؤ کم ہوا اور اپوزیشن دو کیمپوں پی ٹی آئی اور پی پی پی میں بٹ گئی اور متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے تحریک نہ چل سکی۔ اس لیے عمران کو لاک ڈاؤن کے لیے دیگر پارٹیوں کی حمایت نہ ملی، حتی کہ طاہر القادری بھی عمران کی روش سے مایوس ہوگئے۔ پی ٹی آئی کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن پر اپوزیشن نے پی ٹی آئی کی صرف علامتی اور اخلاقی حمایت ہی کی تاہم لاک ڈاؤن  کی مخالفت کی۔ سب سے مایوس کن رویہ تو خود پی ٹی آئی کا تھا۔

وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اقدام نہ کرتے اور شیخ رشید موٹر سائیکل سیاسی ڈرامہ نہ کرتے تو عمران کو تو شدید شرمندگی اٹھانی پڑتی۔ پی ٹی آئی کے لیے اس ناکامی میں سبق ہے۔ عمران کو پی ٹی آئی کے بانی رکن حامد خان کی جگہ بابر اعوان کو وکیل کرنے اور کیس کو زیادہ سیاسی بنانے کے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

حامد خان کیس کو سیاسی کرنے کے مخالف تھے اور انہوں نے کیس میڈیا میں لڑنے سے انکار کیا۔ جب کہ بابر اعوان عدالت کے باہر بھی زیادہ بلند آواز ہیں۔ عمران نے نعیم الحق کی جگہ فواد چوہدری کو ذمہ داری دی تاکہ پاناما میڈیا میں گرم رہے۔ اب میچ کا فیصلہ 2017 میں ہوگا، جو شاید 2018 کا بھی فیصلہ کرے جو انتخابی سال ہے۔

عمران کی کمیشن کی مخالفت کے بعد جمعے کو آنے والا فیصلہ متوقع تھا۔ پی ٹی آئی قیادت اور قانونی ٹیم نہ صرف صورت حال اور ایک رکنی کمیشن کی تجویز کا اندازہ لگانے میں شاید ناکام رہی بلکہ وہ یہ بھی معلوم نہ کرسکی کہ حکومت نے کیوں اپنے آپشن کھلے رکھے ہیں اور روزانہ سماعت کی درخواست کرنے کے ساتھ ساتھ کمیشن بنانے کی مخالفت بھی نہ کی۔

پی ٹی آئی کو جمعے سے پہلے اپنا فیصلہ سنانا نہیں چاہے تھا اور حکومتی جواب کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ اس کے کمیشن کے بائیکاٹ کے فیصلے سے حکومت کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کا موقع مل گیا۔ کمیشن پر حکومت اور اپوزیشن کے اختلاف کی وجہ سے عدالت نے اگلے چیف جسٹس کی حلف برداری تک سماعت ملتوی کردی۔ پھر حکومت پہلے ہی نئے چیف جسٹس ثاقب نثار کا نوٹی فکیشن جاری کرچکی تھی جس کی وجہ سے موجودہ بنچ کے پاس شاید معاملہ اگلے چیف جسٹس کے لیے چھوڑنے کے سوا چارہ نہ رہا۔

عمران کے پاس کمیشن کی مخالفت کیوجہ ہوگی مگر انہوں نے اہم سماعت سے قبل سارے پتہ دکھا دیے۔ مگر ن لیگ اور نواز شریف نے اسے پی ٹی آئی پر سبقت سمجھا تو غلطی کریں گے، کیونکہ یہ قانونی و سیاسی سے بھی بڑا کیس ہے جو 2017 تک انہیں پریشان کرے گا، یہاں تک کہ ان کے خلاف یا حق میں حتمی فیصلہ آجائے۔ پاناما اپوزیشن کا بڑا ہتھیار رہے گا،جسے اپوزیشن نواز شریف اور حکومت کے خلاف استعمال کرسکتی ہے۔

عمران نے کیس کو زندہ رکھا مگر اگر وہ اپنے کارڈ اچھی طرح کھیل لیتے تو ن لیگ کو چند جھٹکے دے سکتے تھے۔ پاناما پر سیاست شاید ختم نہیں ہو تاہم اصل فیصلہ میڈیا کی عدالت نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا ہوگا۔ عمران کو اگلے الیکشن کے لیے سپریم کورٹ سے کیس جیتنا پڑے گا کیونکہ انہوں نے اعتزاز احسن اور شیخ رشید سمیت دیگر لوگوں کے مشورے کے باوجود عدالت جانے کا فیصلہ کیا۔ ی

ہ شاید عمران خان کےلیے بری خبر نہیں ہے کیونکہ پاناما کیس وزیراعظم کو پریشان کرتا رہے گا مگر اس بار نیا بنچ، نیا چیف جسٹس اور نیا سال ہوگا۔ اس لیے عمران کے ہاتھ سے سارا معاملہ نہیں نکلا مگر فتح دور ہے۔