11 دسمبر ، 2016
کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زائد، بجٹ اربوں روپے، شہر میں ہزاروں بلند عمارتیں لیکن کسی نا گہانی صورت حال میں آگ بجھانا محکمہ فائر بریگیڈ کے بس کی بات بالکل بھی نہیں۔
کراچی میں اگر آگ لگ جائے تو اسے بجھایا کیوں نہیں جا سکتا ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کوئی دینے کو تیار نہیں۔ جیو نیوز انویسٹی گیشن نے جب معلوم کیا تو حیران کن انکشافات سامنے آئے۔
محکمہ فائر بریگیڈ کے 12 سو سے زائد ملازمین تنخواہ ضرور لیتے ہیں لیکن حاضر آدھے بھی نہیں ہوتے، جو حاضر ہوتے ہیں ان میں سے 170 فائر فائٹرز پچاس سال سے زائد عمر کے ہیں جو بین الاقوامی تقاضوں پر پورے نہیں اترتے، باقی بھرتیاں سیاسی سفارش پر دی گئیں۔
کراچی میں کاغذوں میں تو 22 فائر اسٹیشنز ہیں لیکن کام صرف 12 کرتے ہیں ۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق ایک لاکھ کی آبادی کیلئے ایک ماڈل فائر اسٹیشن اور چار گاڑیاں ہونا ضروری ہیں۔ اس طرح کراچی کی دو کروڑ کی آبادی کو 200 فائر اسٹیشنز اور 28800 فائر فائٹرز درکار ہیں۔
شہر کو کم از کم 800 فائر ٹینڈرز کی ضرورت ہے لیکن موجود صرف 16 ہیں، مجموعی طور پر48 گاڑیاں ہیں، 15 مکمل طور پر لاعلاج جبکہ 17 گاڑیاں جزوی بیمار ہیں اور ان کی دوا دارو اور مرمت کے لیے کے ایم سی کے پاس فنڈز نہیں۔
2012 میں سانحہ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں آتشزدگی سے 259 افراد جل کر خاکستر ہوگئے۔ کیمیکل گودام ہو ، فیکٹری ہو یا کوئی اونچی عمارت، ان میں لگی آگ بجھتی بھی تب ہے جب اسے خود سے بجھنا ہو اور وجہ یہ کہ نہ تو وسائل موجود ہیں، نہ سازو سامان اور نہ انتظامیہ کی خواہش۔
کراچی بلند عمارتوں کا جنگل بنتا جارہا ہے لیکن اگر دو عمارتوں میں بیک وقت آگ لگ جائے تو پھر ان مکینوں کا اللہ ہی حافظ کیونکہ انتظامیہ کے پاس دو اسنارکل ہیں جو اس پائے کی نہیں کہ بلند عمارتوں کی آگ بجھا سکے۔ ان حالات میں حکام کا کہنا ہے کہ حکومت فائر فائٹنگ کے محکمے کی از سر نو تنظیم کرے گی، کراچی پیکج میں بھی اس کے لئے 57 کروڑ روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے۔