بلاگ
22 دسمبر ، 2016

پرویز مشرف کے چار معاہدے

پرویز مشرف کے چار معاہدے

سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کو ملک چھوڑ کر جانے کی اجازت دیا جانا اور خودساختہ جلاوطنی کرنا چاہے کسی معاہدے کا حصہ ہو، جس کا انکشاف انہوں نے خود ہی کیا۔ اس کا مخصوص حلقوں کی جانب سے جواب آنا باقی ہے۔ اپنے دور میں پرویز مشرف نے اس ایک کے علاوہ تین معاہدے اور بھی کئے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ یہ ’’شخص قانون سے بالاتر ‘‘ہے۔

سن2001میں وزیر اعظم نواز شریف کی رہائی کے لئے انہوں نے سعودی شاہی خاندان سے معاہدہ کیا۔ 2007میں بے نظیر بھٹو سے معاہدہ کیا جسے آصف علی زرداری کے ساتھ ’’این آر او‘‘ معاہدہ قرار دیا گیا جس کے نتیجے میں انہیں محفوظ راستہ دیا گیا اور کوئی مقدمہ نہ چلانے کا کہا گیا۔ اب انہوں نے خود ہی ایک نیا تنازع چھیڑ دیا ہے۔ 2013میں واپس نہ آنے کے لئے انہوں نے آئی ایس آئی سربراہوں کا مشورہ نہ مانا جو سیکورٹی وجوہات اور نواز شریف کی انتخابی کامیابی کے امکان کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ نواز شریف اپنی کامیابی کی صورت میں پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کا ارادہ رکھتے تھے۔

سابق صدر اور آرمی چیف کے انکشاف نہ صرف حکومت اورجنرل (ر)راحیل شریف کے لئے پریشانی کا باعث بنا بلکہ اس نے سنجیدہ سوالات کو بھی جنم دیا کہ پرویز مشرف پر مقدمے کو سول ملٹری تعلقات میں رکاوٹ سمجھا گیا۔ حالانکہ یہ اس شخص کے خلاف سادہ سا مقدمہ تھا جس نے آئین توڑا کا ’’انتہائی غداری‘‘ کا ارتکاب کیا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اس لئے پھانسی چڑھادیئے گئے کیونکہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) ضیاء الحق مرحوم کو خدشہ تھا کہ اگر انہوں نے انتخابات کرائے اور پیپلزپارٹی دوبارہ جیت گیئ تو بھٹو مرحوم آرٹیکل۔6کے تحت ان پر انتہائی غداری کا مقدمہ چلاسکتے ہیں۔

سن 1988میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے امکانات گھٹانے کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) تشکیل دیا گیا۔ اس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ڈر تھا اگر بے نظیر کو موقع مل گیا تو وہ انتقام  لیں گی۔ یہ بھی تاریخ کا معاملہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت غیر قانونی احکامات کو قانونی تحفظ فراہم کیا ۔ 2001کے ظفر علی شاہ کیس میں پرویز مشرف کو بھی یہی تحفظ دیا گیا۔ اس طرح ماضی میں عدلیہ آئین کو تحفظ دینے میں ناکام رہی۔ تمام مارشل لاء ادوار کو جواز فراہم کیا۔

سیاسی حکمرانوں کو کرپشن، آئینی خلاف ورزیوں اور بدتر طرز حکمرانی پر سزا دی جانی چاہئے لیکن آئین کی نظر میں سب سے بڑا جرم خود آئین کی تنسیخ ہے جسے سیاسی فوجی تعلقات میں تعطل کا ایشو بنایا گیا لیکن انتہائی غداری کا مقدمہ ہی پرویز مشرف کے خلاف بڑی اہم نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بے نظیر بھٹو، نواب اکبر بگٹی کے مقدمات ہائے قتل اور لال مسجد آپریشن کا مقدمہ  بھی برابر کی اہمیت کے حامل ہے جن میں وہ نہ صرف مطلوب بلکہ ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوچکے ہیں۔

یہ بات بھی خاصی حیران کن ہے کہ اپنے مسلسل انٹرویوز میں کہتے رہے کہ وہ اسی صورت پاکستان واپس آئیں گے جب انہیں آزادانہ نقل و حرکت کا موقع دیا جائے گا لیکن اس کے باوجود کسی بھی عدالت نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا کہ وہ عدالت کو یہ کہہ کر طبی رخصت پر گئے کہ وہ فٹ ہوتے ہی وطن واپس لوٹ آئیں گے۔

اگر متعلقہ اداروں کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں آئی تو عمران خان کے 2014میں دھرنے کے پیچھے ’’اسکرپٹ‘‘پر یقین کرنے پر کوئی بھی مجبور ہوگا۔ اس پر تعجب نہیں کہ عمران خان اور طاہر القادری ’’امپائر کی انگلی کے اشارے‘‘پر کیوں اتنے پراعتماد تھے۔ پرویز مشرف اپنے محسن جنرل (ر) راحیل شریف کے لئے انتہائی پشیمانی کا باعث بنے جنہوں نے اپنے سابق باس کو مشکل سے نکالنے میں کردار ادا کیا۔

اس طرح ایک اور سابق آرمی جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کو مہران بینک اسکینڈل میں بچایا گیا جب سپریم کورٹ نے 1990کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیابلکہ ان تمام کے خلاف کارروائی کی حکومت کو ہدایت کی جو پیسے بانٹنے اور وصول کرنے میں ملوث رہے۔

پرویز مشرف کے کیس میں اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاہدہ کیا کہ اگر صدر مستعفی ہوجائیں تو انہیں گرفتار کیا جائے گا اور نہ ہی مقدمہ چلے گا۔ انہیں باعزت رخصت کیا گیا اور بدقسمتی سے پیپلز پارٹی کی حکومت نے بے نظیر کے قتل میں ان کے کسی مبینہ کردار کے بارے میں پوچھ گچھ کی اور نہ ہی آئین کے آرٹیکل۔6کے تحت کوئی مقدمہ درج کیا۔ یہ بھی حیران کی بات ہے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی اور اعتزاز احسن جیسے پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے اس بارے میں اپنی قیادت سے سوال نہیں اٹھایا۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا پرویز مشرف کو آرمی چیف بنوانے میں کلیدی کردار رہا۔ ابتداء میں انہوں نے ہی فوج کے کسی ممکنہ دبائو کو پیش نظر رکھتے ہوئے آرٹیکل۔6کے تحت مقدمہ چلائے جانے کی مخالفت کی تھی۔ حتیٰ کہ پرویز مشرف کے سخت ترین نقاد آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل مرحوم نے بھی اپنے ایک بیان میں پرویز مشرف کو غدار قرار دینے اور مقدمہ چلانے کی مخالفت کی تھی۔
جب حکومت نے بالآخر پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تو اچانک انہیں عدالت لے جانے کے بجائے اسپتال منتقل کردیا گیا۔ کوئی سوچ بھی سکتا ہے جب کوئی سیاسی حکمراں کو ایسے کسی مقدمے کا سامنا ہوتو اسے عدالت لے جانے کے بجائے اسپتال منتقل کردیا جائے۔

پیپلز پارٹی کے کئی رہنمائوں کو ’’لیبیا سازش کیس‘‘ میں مقدمات اور سزائوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں ان پر بھٹو  مرحوم کو قید سے چھڑاکر لے جانے کی کوشش کا الزام لگا تھا۔ پرویز مشرف تو شاید ایک یا دو بار ہی عدالت گئے ہوں گے، اب وہ دبئی میں ہیں اور پاکستان کے سوا دنیا میں کہیں بھی آنے جانے کے لئے آزاد ہیں۔ اس کے برخلاف 12اکتوبر 1999کوپرویز مشرف جیسے ہی پاکستان واپس آئے جنرل محمود کی قیادت میں اس وقت کے کور کمانڈرز نے پہلے ہی بغاوت کردی تھی۔

حکومت برطرف، منتخب وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ سب کچھ مارشل لا لگائے بغیر کیا گیا۔ نواز شریف کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوئیں بلکہ ان پر طیارہ ہائی جیکنگ کیس چلایا گیا۔ بکتر بند گاڑی میں عدالت پہنچایا جاتا رہا۔ وہ دو سال تک اٹک اور لانڈھی کی جیلوں میں قید رہے۔ عمر قید کی سزا سنائی گئی لیکن اس وقت کی حکومت نے سزائے موت کے لئے اپیل دائر کی۔

بالآخر سعودی شاہی خاندان نواز شریف کی مدد کو آیا اور’’ 10 سالہ معاہدے ‘‘کےتحت بچاکر لے گیا۔ آخر میں اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ’’این آر او‘‘ کیا۔ اب یہ وقت ہے کہ حکومت پرویز مشرف سے تازہ معاہدے کی قوم کے سامنے تفصیلات رکھے۔

اس بار پرویز مشرف ملزم اور گیند وزیراعظم نواز شریف اور جنرل (ر) راحیل شریف کے کورٹ میں ہے۔ ملک میں نظام اسی طرح چلتا ہے جب ایک سیاسی حکمران غیر سیاسی شخصیت پر مقدمہ چلاتا ہے تو یہ سیاسی و فوجی تعلقات میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اب یہ ایک سے زیادہ اداروں کی آزمائش ہے کہ وہ پرویز مشرف کے ای سی ایل اور مقدمے سے استثنیٰ کا جواز ثابت کریں۔