05 جنوری ، 2017
عبدالماجد بھٹی
بہت پرانی بات نہیں ہے چند ماہ قبل پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہد آفریدی کے ساتھ جو کیا اس نے بہت سارے کرکٹرز کو باعزت گھر جانے پر مجبور کردیا ہے، لیکن شاید مصباح الحق شاہد آفریدی کے ساتھ کرکٹ بورڈ کا سلوک فراموش کر بیٹھے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ریٹائر منٹ کے حوالے سے قلابازی کھائی اور اپنی ریٹائرمنٹ کی تمام قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ سڈنی میں ہونے والے تیسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی کپتانی کریں گے۔
میلبورن میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں ڈرامائی انداز میں شکست کے بعد ان کے بیان سے ریٹائرمنٹ کے خیال کو ہوا ملی تھی، انھوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے مستقبل پر غور کریں گے اور تیسرے ٹیسٹ سے قبل بھی ریٹائر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ کپتان مصباح الحق نے سڈنی میں پریس کانفرنس میں جلد ریٹائرمنٹ کی تمام قیاس آرائیوں کو ختم کر دیا۔
انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ 'وہ سنہ 2016 تھا اور اب سنہ 2017 ہے، وہ وقت گزر چکا ہے، میں نے ریٹائر منٹ کے حوالے سے بیان مایوسی میں دیا تھا، انھوں نے مزید کہاکہ آپ کو اسپورٹس مین کی طرح لڑنا ہے اور یہ میرے لیے بھی اہم ہے، انٹرنیشنل کریئر کو ابھی ختم کرنے کے بارے میں سوچا نہیں ہے، وہ اس بارے میں پاکستان واپسی پر کوئی فیصلہ کریں گے۔
مصباح نے اپنا کریئر سنہ 2001 میں شروع کیا تھا، وہ اب صرف ٹیسٹ میچ ہی کھیلتے ہیں اور دوسرے فارمیٹ سے سبکدوش ہو چکے ہیں، پاکستان کرکٹ کے لئے مصباح الحق کی خدمات سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ مصباح الحق اب پاکستان کرکٹ کےلئے ناگزیر ہوگئے ہیں۔چیئرمین شہریارخان کا کہنا ہے کہ مصباح الحق کو ابھی مزید کچھ عرصہ ٹیم کی قیادت کرنی چاہیے اور دو ٹیسٹ میچوں کی ناکامیوں پر میدان چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے۔
مصباح الحق کے ساتھ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ناکام ہوئے ہیں، وہ بہت ہی مستقل مزاج بیٹسمین واقع ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ موجودہ فارم کی وجہ سے وہ بہت ہی زیادہ مایوس ہوئے ہونگے لیکن کرکٹ میں ایسا ہوتا رہتا ہے اور دنیا کے بڑے بڑے بیٹسمینوں کی فارم متاثر ہوتی ہے، انہیں خوشی ہے کہ مصباح الحق سڈنی ٹیسٹ کھیل رہے ہیں اور جب وہ وطن واپس آئیں گے تو ان سے ان کے مستقبل کے بارے میں بات ہوگی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ چاہتا ہے کہ وہ مزید کچھ اور وقت پاکستانی ٹیم کی قیادت کریں کیونکہ وہ فٹ ہیں اور بہت کامیاب رہے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی آئندہ ٹیسٹ سیریز مارچ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ویسٹ انڈیز میں ہونا ہے، مصباح نے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد مشکل وقت میں ٹیم سنبھالی اور ملک کے کامیاب ترین کپتان بن گئے، بڑھتی ہوئی عمر اور خراب بیٹنگ فارم نے انہیں ریٹائر منٹ کےقریب پہنچا دیا ہے لیکن شاید وہ کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے گھبرا رہے ہیں یا کئی اور پاکستانی کرکٹرز کی طرح وہ از خود ریٹائر منٹ نہیں لینا چاہتے۔میلبورن میں ایک اور شرم ناک شکست کے بعد مصباح الحق نے کہہ دیا تھاکہ اپنے مستقبل کا فیصلہ چند دنوں میں کروں گا، اب وقت آگیا ہے کہ ٹیم پر بوجھ نہ بنوں، ریٹائر منٹ کا بہت پہلے سے سوچ رہا تھا، اگر رنز نہیں کررہا تو مجھے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہوگا، وقت آگیا ہے کہ فیصلہ کروں۔
میلبورن میں بھی ایک سیشن میں خراب کھیلنے اور ٹیسٹ میچ ہارنے کی روایت تبدیل نہ ہوئی۔مصباح الحق جو شاٹس کھیل رہے ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں کھیلتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اعتماد گرا ہواہےاور خراب کارکردگی سےمیرے حوصلے پست ہوئے ہیں۔آسٹریلیا میںنہ بیٹنگ نے توقعات پوری کیں اور نہ بولروں نے کام دکھایا۔مصباح کے بعد پاکستانی ٹیم کو ایک ایسے کپتان کی ضرورت ہے جو گنگولی کی طرح پاکستانی ٹیم کو لڑائے اور دنیا کی بہترین ٹیم میں تبدیل کرے۔چند دن پہلے شاہد آفریدی مایوسی کے انداز میں یہ کہہ رہے تھے کہ بورڈ سے الوداعی میچ کی بھیک نہیں مانگوں گا، شاہد آفریدی کی الوداعی میچ کھیل کر بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہنے کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔مصباح کو چاہیے کہ وہ شاہد آفریدی سے عبرت حاصل کریں۔
گھر کے شیر نیوزی لینڈ کے بعد آسٹریلوی میدانوں میں بھی ڈھیرہوگئے، نہ مصباح الحق کا تجربہ کام کرسکا اور نہ یونس خان آسٹریلوی میدانوں پر زندگی کی بہترین اننگز کھیل سکے، وہاب ریاض کی اسپیڈ بھی کام نہ کرسکی ،محمد عامر کب چلیں گے اسی انتظار میں ٹیم ایک اور شکست سے دوچار ہوگئی،یاسر شاہ کا جادو بھی بے اثر رہا۔مکی آرتھر کی سربراہی میں پاکستانی ٹیم کا مہنگا سپورٹ اسٹاف بھی ہار کی روش تبدیل نہ کرسکا۔میلبورن میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کے پانچویں اور آخری دن آسٹریلیا نے پاکستان کو ایک اننگز اور 18 رنز سے شکست دے دی۔پاکستانی بیٹنگ آسٹریلیا کی پہلی اننگز میں 181 رنز کی برتری کے جواب میں 163 رنز بنا کر آوٹ ہوگئے۔یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ پاکستانی ٹیم اپنے گرائونڈ میں نا قابل تسخیر ہے اوراگر اسے اپنی مرضی کنڈیشنز نہ ملیں تو اس کے کھلاڑیوں کے لئے کارکردگی دکھانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوجاتا ہے۔مصباح الحق کی کپتانی کے انداز پر آسٹریلیا میں ماہرین تنقید کررہے ہیں۔
یونس خان دس ہزار رنز کے چکر سے باہر نہیں آرہے ہیں، ابتدائی دونوں ٹیسٹ میچوں میںچار چار سوسے زائد رنز بنانے کے باوجود پاکستانی ٹیم دونوں ٹیسٹ اور سیریز ہار گئی، چیف سلیکٹر انضمام الحق بھی مشکل فیصلے لینے میں ناکام ہیں اور پاکستان کرکٹ کی کشتی ایسے منجھدار میں پھنسی ہوئی ہے جسے نکالنے کے لئے کسی مسیحا کی ضرورت ہے، کیا مسیحا اظہر علی ہوں گے، سرفراز احمد ہوں گے یا کسی اور کے سر پر قیادت کا تاج سجایا جائے گا؟ـ اعلیٰ تعلیم یافتہ مصباح الحق نے ریٹائر منٹ کے لئے ذہن بنالیا تھالیکن اچانک پلٹ گئے۔پاکستان کرکٹ بورڈ مصباح الحق کے معاملے میں سو چ و بچار ضرور کررہا ہےلیکن شہریار خان شاید فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔شاید عمر کے اس حصے میں وہ بھی کپتانی کا معاملہ مصباح الحق پر چھوڑرہے ہیں۔
شہریار خان کے مقابلے میں انضمام الحق کہتے ہیں کہ ہم نے مصباح اور یونس خان کے متبادل کی تلاش شروع کردی ہے۔شہریار خان کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کا نتیجہ پاکستان ٹیم کے حق میں نہ بھی ہوا اور بر ا ررہا تو ریٹائر منٹ اور کپتانی چھوڑنے کا فیصلہ مصباح الحق کو کرنا ہوگا۔ مصباح نے پاکستان کرکٹ کے لئے جو خدمات انجام دی ہیںاس کو دیکھتے ہوئے مصباح الحق کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔انہوں نے سرفراز احمد کا نام لئے بغیر کہا کہ تینوں فارمیٹ کے لئے کسی ایک کو کپتان بنایا جاسکتا ہے۔ٹیسٹ کپتان کے لئے یونس خان کا آپشن بھی موجود ہےلیکن ان کی خراب فارم ان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ شہریار خان نے واضح کیا کہ آسٹریلیا کی ٹیسٹ سیریز کا خراب نتیجہ بھی ہوا تو بورڈ از خود فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ اس کا فیصلہ مصباح الحق ہی کریں گےلیکن مصباح نے خود ہی حالات دیکھ کر ذہن بنا لیا ہے۔
واضح رہے کہ چند دن پہلے شہریار خان نے کہا تھا کہ مصباح کو دو ہزار اٹھارہ تک کپتان بنانے کی درخواست کریں گے۔شہریار خان نےکہا کہ انگلینڈ کے خلاف سیریز کے بعد اظہر علی کی کپتانی پر پی سی بی انتظامیہ کا اعتماد کم ہوا تھا، حتیٰ کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر ،سرفراز احمد کو کپتان بنانے کے حق میں تھےلیکن ویسٹ انڈیز کی سیریز تین صفر سے جیتنے کے بعد اظہر علی تگڑا ہوا ہے۔ اظہر علی کی کپتانی کے بارے میں شہریار خان کے بیان سے اظہر علی سخت ناراض ہوئےاور اس کا اظہار ٹیم انتظامیہ کے سامنے بھی کیا۔آسٹریلیا میں سیریز شروع ہونے سے قبل یہی کہا گیا تھا کہ موجودہ آسٹریلوی ٹیم کمزور ترین ٹیم ہےجسے ہرانا پاکستانی ٹیم کے لئے مشکل نہیں ہوگا۔اسٹیو اسمتھ نے ثابت کردیا کہ ان کی ٹیم کو انہی کے میدانوں میں ہرانا آسان نہیں ہے۔ پاکستان ٹیم دنیا کی سب سےغیر مستقل مزاج ٹیم ہے جس کی کارکردگی ایک اننگز میں آسمان پر چلی جاتی ہے اور دوسری اننگز میں یہی ٹیم زمین بوس ہوجاتی ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی تعریف کی جائے یا اس پر تنقید کی جائےلیکن یہ حقیقت ہے کہ مصباح الحق پاکستان کرکٹ ٹیم میں جو کلچر چھوڑ کر جارہے ہیں اسے تبدیل کئے بغیر کچھ بہتر نہیں ہوسکتا۔
پرسکون انداز میں بیٹنگ اور کپتانی کرنے والے مصباح الحق اس سال پاکستانی ٹیم کو اس کی تاریخ میں پہلی بار بلند ترین مقام پر لے آئے جب پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ میں صفِ اول کی ٹیم کا اعزاز حاصل کیا۔اگست میں پاکستانی ٹیم دنیاکی نمبر ایک ٹیسٹ ٹیم بن گئی۔سال کے اختتام پر آئی سی سی نے انہیں ا سپرٹ آف دی کرکٹ ایوارڈ کے لیے منتخب کیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی کرکٹر بن گئے لیکن سال ختم ہونے سے پہلے پاکستانی ٹیم آسٹریلیا سے ٹیسٹ سیریز ہار گئی۔ مصباح کی قیادت میں پاکستان کو مسلسل پانچویں ٹیسٹ میں شکست ہوئی جبکہ آسٹریلوی سر زمین پر پاکستان لگاتار گیارہواں ٹیسٹ ہار گیا۔2016 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا سب سے بڑا کارنامہ انگلینڈ کے خلاف اسی کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز دو دو سے برابر کرنا تھا۔پاکستانی ٹیم نے لارڈز اور اوول کے ٹیسٹ میچز جیت کر یہ سیریز برابر کرکے ناقدین کو لاجواب کردیا جنہوں نے سیریز سے قبل ہی یہ دعوے کررکھے تھے کہ اس دورے میں پاکستانی ٹیم انگلینڈ کے لیے ترنوالہ ثابت ہوگی۔ مصباح الحق نے لارڈز ٹیسٹ میں سنچری بنائی اور اگلے تین ٹیسٹ میچوں میں مزید دو نصف سنچریاں بناکر وزڈن کے پانچ بہترین کرکٹر میں شمولیت کے امکانات روشن کردیے۔
مصباح الحق سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں قیادت کرنے والے پاکستانی کپتان بھی بن گئے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اس سال ویسٹ انڈیز کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز جیتی لیکن دبئی اور ابوظہبی کے ٹیسٹ میچوں کی جیت کے بعد شارجہ میں شکست سب کے لیے غیرمتوقع تھی۔پاکستانی ٹیم کو نیوزی لینڈ میں کھیلے گئے دونوں ٹیسٹ میچوں میں شکست ہوئی۔پاکستانی ٹیم اسوقت آسٹریلیا کے دورے پر ہے جہاں برسبین کے پہلے ٹیسٹ میچ میں شکست کے بجائے اس کی زبردست فائٹ بیک کے چرچے جاری تھے۔میلبورن ٹیسٹ میں ابتدا اچھی کرنے کے باوجود پاکستانی ٹیم میچ اور سیریز ہار گئی۔برسبین اور میلبورن ٹیسٹ میں مصباح کی کارکردگی نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے۔مصباح کے لئے آخری آپشن کے طور پر سڈنی میں موجود ہے۔مصباح الحق نے دوسرے ٹیسٹ میں چار سو رنز بناکر اننگز ڈکلیئر کردی اور ٹیسٹ میچ اننگز اور 18رنز سے ہار گئے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں پہلا واقعہ ہے۔
مصباح کی جگہ کون لے گا؟ بظاہر اظہر علی اس عہدے کے لئے مضبوط امیدوار ہیںلیکن اظہر علی کی قیادت میں پاکستانی ون ڈے ٹیم کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔اگر پاکستان ٹیسٹ سیریز کے بعد ون ڈے سیریز میں پانچوں میچ ہار گیا تو پھر اظہر علی کی کپتانی خطرے میں پڑ جائے گی۔2016میں پاکستانی ٹیم کی ون ڈے انٹرنیشنل میں کارکردگی خاصی مایوس کن رہی۔اسے نیوزی لینڈ میں دو صفر اور پھر انگلینڈ میں چار ایک سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستانی ٹیم کی کامیابیاں صرف آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف رہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم ون ڈے کی عالمی رینکنگ میں نویں نمبر پر ہے اور ورلڈ کپ میں اس کی براہ راست شرکت پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں بھی پاکستان کے لیے یہ سال اچھا ثابت نہ ہوسکا۔پاکستانی ٹیم بھارت میں منعقدہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں چار میں سے تین میچز ہارکر سیمی فائنل میں پہنچنے میں ناکام رہی۔ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے سرفراز احمد کو قیادت سونپ دی۔سرفراز احمد نے چاروں ٹی ٹوئنٹی جیت کر پاکستانی ٹیم کو جیت کی راہ پر گامزن کیا۔پاکستانی ٹیسٹ کے بعد ون ڈے ٹیم کی آزمائش شروع ہونے والی ہے۔ڈومیسٹک میں ٹاپ پرفارمرکامران اکمل اور آصف ذاکر پھر نظر انداز ہوگئے، محمد حفیظ کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔مکی آرتھر اور اظہر علی کے سامنے سلیکٹرز نے ہتھیار ڈال دیئے۔مکی آرتھر مہنگے کوچ ہیںاور ان کے اختیارات کا اندازہ اس بات سے لگایا جارہا ہے کہ وہ اپنی بات منوا رہے ہیں۔یہ اچھی روایت ضرور ہے لیکن کیا وہ ٹیم کی خراب کارکردگی کی ذمے داری بھی لیں گے۔ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد وقاریونس بھی پاکستانی ٹیم کے کوچ نہ رہے اور ان کی جگہ مکی آرتھر کو نیا کوچ مقرر کردیا گیا۔ابتدا ا چھی ہوئی لیکن اب ٹیم مسلسل ہار رہی ہے۔پچھلی بار وقار یونس اور ہارون رشید کو شکست کے بعدقربانی کا بکرا بنایاگیا تھا۔اس سیریز کے بعد کیا ہوگا اس کا جواب وقت ہی دے گا لیکن پاکستان کرکٹ کو بہتر بنانے کے لئے سوچ ،انداز اور بہت کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔