19 جنوری ، 2017
کراچی میں سندھ رینجرز کو پہلی مرتبہ مرحومہ وزیراعظم بےنظیر بھٹو نے 1989 میں اس وقت بلایا تھا جب جامعہ کراچی میں پی ایس ایف کے تین کارکنوں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ فوجداری قانون کی دفعہ 147 کے تحت انہیں طلب کر کے شہری انتظامیہ کی معاونت کے لئے تعینات کیا گیا تھا۔
اب 27 برس گزر چکے ہیں اور اس کی کامیابی و ناکامی کا جائزہ لینے کا وقت آگیا ہے کیونکہ معاشرے کے مختلف طبقات نے ان کی تعریف کی ہے تو کچھ نے سوالات ایسے بھی ہیں جن کے جوابات آنا باقی ہیں۔
رینجرز کی موجودگی میں کراچی میں تین بڑے آپریشن کیے گئے، فوجی آپریشن، پولیس آپریشن اور رینجرز کا موجودہ آپریشن، جسے موثر ترین سمجھا جاتا ہے۔ اس کی کامیابی کے پیچھے دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک، کیونکہ اسے بڑی حد تک متوازن رکھا گیا اور دوسرا، پہلی مرتبہ رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت خصوصی اختیارات دئیے گئے تھے۔
اس کی ناکامیوں میں جو عوامل شامل ہیں ان میں سندھ حکومت اور مرکز کے مابین باہمی ربط کی کمی، دودہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی پولیس کو ایک موثر متبادل فورس بنانے میں ناکام رہنا جو اتنی مضبوط ہو کہ نیم فوجی تنظیم کی جگہ لے سکے اور پولیس کو سیاست سے پاک کرنے میں ناکام رہنا شامل ہے۔
تیسرا، تفتیش اور عدالتی کاروائی میں ناکام رہنا، جس کے نتیجے میں ہائی پروفائل مقدمات میں بھی پیش رفت نہ ہوسکی۔ چوتھی اور اہم ترین بات اعلی انٹیلی جنس ایجنسیز کا کردارا ہے، جن کی جانب سے مبینہ طور پر بالخصوص ایم کیو ایم میں اچھے اور برے کا لحاظ رکھنے کی وجہ سے آپریشن کرنے والی قوتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
یہی 1992 میں بھی ہوا تھا اور یہی اب بھی ہوا ہے۔ مشتبہ افراد کو بدنام کرنے پر تو بہت زیادہ زور دیا گیا لیکن اس کے بجائے انہیں عدالتوں سے سزا دلانے پر اتنی توجہ نہیں دی گئی۔ ویڈیوز سامنے آئیں، جے آئی ٹی لیک ہوئیں خواہ وہ ایم کیو ایم کے مبینہ عسکریت پسندوں کی ہوں یا سابق صدرآصف علی زرداری کے قریب رہنے والوں کی ہوں لیکن اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس آپریشن پر سوالات اٹھ گئے۔
ڈاکٹر عاصم کی ویڈیو جاری ہونے کے بعد کا ردعمل بہت شدید تھا یہاں تک کہ ایک مرحلے پر پی پی پی کے لیڈروں نے مرکز اور رینجرز کے خلاف قراردادیں لانے کاارادہ کرلیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے کال کوٹھری سے ایم کیو ایم کے عسکریت پسند صولت مرزا کی لیک ہونے والی ویڈیو کا بھی دفاع کیا۔
دوسری جانب رینجرز نے اپنے آپریشن کا دفاع کیا ہے، ان کا اب بھی خیال ہے کہ اگر انہیں پراسیکیوشن کے اختیارات، الگ پولیس اسٹیشن اور اسپیشل پراسیکیوٹرز کی تعیناتی کے اختیارات دیے گئے ہوتے تو نتائج مزید موثر ہوسکتے تھے۔ ایک مرتبہ اس نے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کردی تھی جس کی سندھ حکومت نے مخالفت کی۔
سندھ حکومت اب ایک مخمصے کا سامنا ہےکیونکہ رینجرز یک طرفہ آپریشن کے لئے تیار نہیں ہے یہاں تک کہ وزیراعلی یا سندھ حکومت سے گرفتاری کے لئے پہلے سے اجازت لینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے کیونکہ ماضی میں خبر لیک ہونے کی وجہ سے مشتبہ افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ نئی ایپکس کمیٹی، نئے کورکمانڈر اور نئے ڈی جی رینجرز کے ساتھ اور زیادہ موثر و متحرک وزیراعلی کے ساتھ آپریشن میں بھی نیا پن ہونا چاہیے۔ اس کو غیرمتعصبانہ، نتائج کا حامل اور سیاسی پسند وناپسند سے بالاتر ہونا چاہیے۔
ذرائع کہتے ہیں کہ انور مجید کے دفاتر پر چھاپوں کے واقعے کی وجہ سے اور وہ بھی اس دن جب سابق صدر آصف علی زرداری ایک سال کی طویل خودساختہ جلاوطنی کے بعد واپس پہنچے تھے، وزیراعلی مراد علی شاہ کو سخت شرمندگی ہوئ تھی، ذرائع کے مطابق آصف زرداری نے اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔ تقریبا دو برس قبل سابق فوجی سربراہ اور وزیراعظم کے سامنے اعلی اختیاراتی مرکزی اپیکس کمیٹی میں دی جانے والی پریز نٹیشن کی روشنی میں بھارتی خفیہ تنظیم را کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کے خدشے کے اظہار کے بعد رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت خصوصی اختیارات دیے گئے تھے۔
انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اختیارا ت اور پروٹیکشن آف پاکستان کے تحت رینجرز کو 90 روز کے لیے مشتبہ افرادکو اپنے پاس رکھنے اور پولیس کے حوالے کرنے سے قبل تفتیش کرنے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔متعدد واقعات بشمول ڈاکٹر عاصم کے واقعے میں بھی رینجرز مقدمات کی مس ہینڈلنگ کا الزام پولیس پر عائد کرتی ہے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ کو بھی عزیز آباد میں ایک مکان سے ہتھیاروں کی بہت بڑی کھیپ پکڑنے کے بارے میں کیے گئےان بلند و بانگ دعوؤں کے انداز پر تحفظات تھے لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اس معاملے میں پولیس اور وزیراعلیٰ سندھ کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، حکومت نے سیکورٹی ایجنسیوں سے اجلاسوں میں سوالات اٹھائے کہ تحقیقات میں جو کہ اب ختم ہوگئی ہیں، سیاسی لحاظ کیو ں رکھا گیا۔
رینجرز اگرچہ ہوسکتا ہے کہ پھر خصوصی اختیارات میں توسیع حاصل کر لے لیکن وزیراعلی اب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انور مجید کے دفاتر پر چھاپوں سے کیا برآمد ہوا اور کیوں انہیں شرمندگی کا شکار کیا گیا۔ گزشتہ 27 برس کے دوران صرف ایک مرتبہ رینجرزکو واپس بھیجنے اور اس کو پولیس سے تبدیل کرنے کی سمری بےنظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران 1996 میں بھیجی گئی تھی، یہ ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو کے قتل کے بعد ان کی حکومت ختم ہونےسے ایک مہینے قبل کی بات ہے۔
اس حقیقت کی تصدیق مجھ سے کسی اور نے نہیں بلکہ سابق پولیس سربراہ سندھ، ڈاکٹر شعیب سڈل نے کی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’جی ہاں، یہ سچ ہے کہ ہم مطمئن تھے کیونکہ اس دوران کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہورہی تھی۔‘‘ موجودہ آپریشن 2013 میں پاکستان مسلم لیگ ن کی تیسری حکومت کے قیام کے تین ماہ بعد اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی پانچویں حکومت قائم ہونے کے بعد شروع کیا گیا تھا ۔
اس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ رینجرز دہشت گردوں، غیرقانونی گروپوں اور تنظیموں کے خلاف آپریشن میں قیادت کرنے والی فورس کے طور پر کام کرے گی۔ یہ فیصلہ ’’کراچی بدامنی کیس‘‘ میں سپریم کورٹ کی جانب سے 2011 میں سنائے گئے فیصلے پر کیا گیا تھا۔سابق چیف جسٹس، جسٹس افتخار چوہدری کی جانب سے کراچی میں خاص طور پر لیاری میں 2008 سے 2010 کے دوران قتل کی وارداتوں میں اضافے پر سوموٹو نوٹس لیا گیا تھا۔
اس وقت ڈاکٹر ذوالفقار مرزا وزیر داخلہ تھے ، لیاری گینگ اور ایم کیو ایم کے مابین نسل کی بنیاد پر قتل کرنے کے واقعات کے بعد امن و امان کی صورتحال خراب ہوگئ تھی۔ تاہم جب وزیراعظم نواز شریف سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور دیگر نے ’’کراچی ٹارگٹیڈ ایکشن‘‘ کو حتمی شکل دی تھی تو اس وقت شکایات کا جائزہ لینے اور انہیں دور کرنے کے لئے ایک ریویو کمیٹی کی بھی منظوری دی تھی۔
اس قسم کی کمیٹی کی ایک وجہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ کوئی ناانصافی نہ ہو، یہ پہلے ہونے والے آپریشنز کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا، جن میں ماورائے عدالت قتل اور افراد کے لاپتہ ہونے کی متعدد شکایات دیکھنے میں آئی تھیں۔ اس خیال کی پہلی مخالفت اس وقت کی سندھ حکومت کی طرف سے کی گئی تھی، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آپریشن کے کپتان وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ کی موجودگی میں ایسی کمیٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ایک سال بعد ہی اسی کپتان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد ریویو کا مطالبہ کیا۔ گزشتہ تین آپریشنز اور 1998 کے گورنر راج کے مقابلے میں اس آپریشن کے مثبت نتائج دینے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ پہلے دو برس کے دوران اس آپریشن کی اپروچ غیرسیاسی رہی ہے۔
اگرچہ ایم کیو ایم نے آپریشن کی حمایت کی تھی اور یہاں تک کہ فوجی آپریشن کی بھی حمایت کی تھی لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں، سندھ اور وفاقی حکومت کی جانب سے کچھ سنگین مس ہینڈلنگ نے سوالات اٹھائے ہیں۔
ان 27 برسوں میں بہت زیادہ خوں ریزی ہوئی ہے، اہم سیاسی رہنماؤں کا قتل ہوا، ماورائے عدالت قتل ہوئے،بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہوئیں لیکن نسبتاً امن کے تین برس بھی گزرے ہیں، خاص طور پر رینجرز کو تفویض کردہ موثر کردار کی وجہ سے ہے۔ ہر توسیع کو ایک جائزے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس وجہ سے نہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب رہنے والے لوگوں کے کچھ قریبی دوست پکڑے گئے تھے بلکہ ایسا کارکردگی کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
سندھ کا آخری حل سیاسی حل ہے جو عسکریت پسندی سے پاک ہو اور انصاف ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ ہوتا بھی دکھائی دینا چاہیے۔ جب تک ہمارے پاس غیر سیاسی میٹروپولیٹن پولیس نہیں ہوگی اس وقت تک رینجرز کی موجودگی ناگزیر ہے۔