01 فروری ، 2017
سات مسلمان ملکوں پر سفری پابندیوں پر امریکا میں احتجاج جاری ہے، اور اب امریکا کی چار ریاستیں اپنے ہی صدر کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں، واشنگٹن، نیویارک، میساچوسیٹس اور ورجینیا نے عدالت جانے کا اعلان کردیا ۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ہزار اہل کار بھی ٹرمپ کے سامنے ڈٹ گئے، تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے کورا جواب دے دیا کہ حکم نامے کو مانو یا گھر جاؤ ۔ سات مسلمان ملکوں کے شہریوں پر سفری پابندیوں کے حکم نامے کے خلاف احتجاج اب سڑکوں سے ہوتا ہوا ریاستی ایوانوں میں پہنچ رہا ہے۔
ٹیکساس،،منی سوٹا اور جنوبی کیرولائنا کی شاہراہیں ٹرمپ مخالف نعروں سے گونج رہی ہیں،امیگریشن بین کو تعصب کی قانونی مثال دیتے ہوئے مظاہرین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے فیصلوں نے مجسمہ آزادی کو بھی رلادیا ہے،جس کی جانب سے ہمیشہ پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہا گیا۔
واشنگٹن،نیویارک،میساچیوسٹس اور ورجینیا نے ٹرمپ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا،چاروں ریاستوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کا مقدمہ تیار کرلیا ہے،میسا چیوسیٹس کی اٹارنی جنرل ماورا ہیلے نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایگزیکٹو آرڈر نہ صرف وفاقی امیگریشن قانون کی خلاف ورزی ہے،بلکہ مذہب اورملکوں کی بنیاد پر بھی شہریوں میں تفریق کا باعث بن رہا ہے۔
ادھر امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ہزار اہل کار بھی ٹرمپ کے سامنے ڈٹ گئے،جنہوں نے ایک دستاویز پر دستخط کرکے صدر کے حکم نامے سے اختلاف کیا،اختلاف کی گونج وہائٹ ہاوس کی بریفنگ میں بھی سنائی دی۔
جس میں ترجمان شون اسپائسر نے اہلکاروں کو حکم مانو یا گھر جاو کا حکم سنادیا،لیکن جب موجودہ صورت حال پر تیکھے سوال برداشت نہ ہوئے تو وہائٹ ہاوس کے ترجمان صورت حال کا ملبہ صحافیوں پر ڈال کر کمرے سے نکل گئے۔
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے فیصلے پر قائم ہیں،جن کا کہنا ہے کہ ویزا پالیسی سے متعلق جس کا جو دل چاہے کہے،یہ قانون برے لوگوں کو امریکا سے باہر رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
لیکن سیاسی تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہرکیا ہے مظاہرین اور ٹرمپ کے درمیان جاری سانپ سیڑھی کے اس کھیل کو اگر خوش اسلوبی سے نہ نمٹایا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈرامریکا کے لیے ڈس آرڈر بن جائے۔