خصوصی رپورٹس
20 فروری ، 2017

سہون دھماکے کا مبینہ مرکزی کردار عبدالحفیظ بروہی کون ہے ؟

سہون دھماکے کا مبینہ مرکزی کردار عبدالحفیظ بروہی کون ہے ؟

سید عارفین

سانحہ سہون شریف کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک ایسے شخص کی تلاش میں انتہائی سرگرم ہیں جس پر سانحہ لال شہباز قلندر میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

آئی جی سندھ نے اتوار کے روز کراچی میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لعل شہباز قلند ر کے مزار پر دھماکا کرنے والے مبینہ خود کش حملہ آور کی شناخت ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مزید کہا کہ اس حملے میں حفیظ بروہی گروپ کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

صوبے کے پولیس سربراہ کے اس بیان کے بعد اہم ترین سوال یہ ہے کہ حفیظ بروہی گروپ کون ہے اور اس کا اس حملے سے کیا تعلق ہوسکتا ہے ؟

حفیظ بروہی گروپ کے سربراہ کا اصل نام عبدالحفیظ پندرانی ہے جو پولیس کو اندرون سندھ ہونے والی وارداتوں میں مطلوب ہے ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شبہ ہے کہ عبدالحفیظ پندرانی نے ہی خود کش حملہ آورکے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہوگا ۔

اس شخص کا نام پہلی دفعہ سامنے نہیں آیا بلکہ مختلف واقعات اور مشتبہ افراد سے کی جانے والی تفتیش میں وقتا فوقتا عبدالحفیظ پندرانی کا نام سامنے آتا رہا ہے ۔عبدالحفیظ پندرانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اندرون سندھ کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ آصف چھوٹو کا اہم ترین ساتھی اور رابطہ کار تھا۔آصف چھوٹو رواں سال 18 جنوری کو شیخوپورہ میں سی ٹی ڈی پنجاب کے ساتھ مبینہ مقابلے میں کو مارا جا چکا ہے ۔

عبدالحفیظ پندرانی کا نام سی ٹی ڈی سندھ کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں پر مشتمل ریڈ بک کے ساتویں ایڈیشن کے صفحہ نمبر 57 پر درج ہے ۔سی ٹی ڈی سندھ کی ریڈ بک کے مطابق عبدالحفیظ پندرانی عرف علی شیر کی عمر تقریبا 35 سال ہے اور وہ ضلع شکارپورکے عبدالخالق پندرانی گوٹھ کا رہائشی ہے ۔ اس کا آبائی تعلق بلوچستان کے علاقے مستونگ سے ہے تاہم کافی عرصے تک خان پور کے قریب واقع ایک علاقے میں رہائش پذیررہا ۔

ریڈ بک کے مطابق عبدالحفیظ پندرانی کا تعلق کالعدم لشکر جھنگوی (آصف چھوٹو گروپ )، کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور جیش محمد سے ہے ۔ عبدالحفیظ پندرانی اندرون سندھ دہشت گردی کی بڑی وارداتوں میں آصف چھوٹوکے ساتھ شامل رہا ہے۔30جنوری 2015 کو شکارپور کی کربلا معلی میں جمعے کی نماز کے دوران خود کش حملہ کیا گیا جس میں 60 سے زائد لوگ جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی کالعدم لشکر جھنگوی کا آصف چھوٹو تھا جسے مقامی طور پر عبدالحفیظ بروہی نے مکمل معاونت فراہم کی تھی۔

اس واقعے میں ملوث خلیل احمد نامی شخص کو سی ٹی ڈی نے حراست میں لیا تھا جو اس وقت جیل میں ہے ۔ خلیل احمد کی انٹیروگیشن رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ اس کی ملاقات عبدالحفیظ پندرانی سے 2009 میں افغانستان میں ہوئی۔ عبدالحفیظ پندرانی نے ہی شکارپورکی امام بارگاہ کربلا معلی کی معلومات اکھٹی کرنے کا کام اسے سونپا تھا اور اس مقصد کے لئے آلو کا ٹھیلا بھی فراہم کیا تھا۔

کربلا معلی میں خود کش حملہ کرنے والے الیاس کو بھی عبدالحفیظ نے ہی عبدالخالق پندرانی گوٹھ میں ٹہرایا تھا ۔عبد الحفیظ کے ایک بھائی عبدالحکیم پندرانی عرف پیر بخش نے اندرون سندھ کی تاریخ میں پہلا خود کش حملہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ یہ ناکام خود کش حملہ عاشورہ کے جلوس پر19دسمبر2010 کو شکارپورکے گاؤں نیپئرآبادمیں کیا گیاتھا تاہم پولیس کی فائرنگ سے عبدالحکیم پندرانی مارا گیا تھا۔ فوری طور پر خود کش حملہ آور کی شناخت نہ ہوسکی تھی ۔

کچھ سال بعد سیکورٹی اداروں کودہشت گردوں کی فنڈنگ کی تفتیش کے دوران ایک عورت کی شناخت سامنے آئی۔ تفتیش آگے بڑھی تو پتہ چلا کہ پیسہ وصول کرنے والی عورت پیر بخش نامی شخص کی بیوی تھی جسے 2لاکھ روپے بھجوائے گئے تھے ۔

مزید تحقیق سے انکشاف ہوا کہ عبدالحکیم پندرانی عرف پیر بخش عبدالحفیظ پندرانی کا بھائی ہے۔گزشتہ سال 13 ستمبر کوعید الاضحی کے روز سندھ کے ضلع شکار پور کی تحصیل خان پور کی عید گاہ میں خود کش حملے کی کوشش ناکام بنادی گئی تھی۔ اس واقعے میں ایک خود کش حملہ آور عبدالرحمٰن ہلاک جبکہ دوسرے خود کش حملہ آور عثمان کو زندہ گرفتار کرلیا گیا تھا۔

واقعے کی تفتیش سندھ پولیس کے کاؤنٹر ٹیرازم ڈپارٹمنٹ کے سپر دکردی گئی تھی ۔ گرفتار خود کش حملہ آورعثمان کی جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم(جے آئی ٹی)رپورٹ کے مطابق خضدار کے علاقے وڈھ کے جس گھر میں اسے ٹہرایا گیا تھا وہاں موجود معاذ اور عارف سے ملنے عبدالحفیظ پندرانی آتا تھا ۔رمضان میں ہی عبدالحفیظ پندرانی نے عارف اور معاذ سے ملاقات کی اور خود کش جیکٹ لے کر چلا گیا۔

عیدالاضحی سے ایک دن قبل عارف اور معاذ کے پاس عبدالحفیظ پندرانی اور ایک اور شخص سجاد عرف دلاور آئے جس کے بعد دونوں خود کش حملہ آوروں کو بتایا گیا کہ اب خود کش حملہ کرنے وقت آگیا ہے۔

عیدالاضحی سے ایک روز قبل صبح 8 بجے عثمان ،عبدالحفیظ پندرانی اور عبدالرحمٰن ،سجاد عرف دلاور کے ساتھ دوسری بائیک پر اس گھر سے نکلے ۔ سارا دن کچے کے راستے پر سفر کرتے رہے اور رات کے وقت ایک مقام پر پہنچے جو عبدالحفیظ کے گاؤں سے کچھ فاصلے پر واقع تھی۔ اس جگہ چاول کی فصل لگی ہوئی تھی اور تھوڑے فاصلے پر کھجور کے درخت بھی تھے ۔ ان لوگوں نے اسی مقام پر چادر بچھائی اور لیٹ گئے۔ حفیظ نے کہا کہ وہ سامان لے کر آتا ہے اور چلا گیا۔

پندرہ بیس منٹ بعد حفیظ پندرانی خود کش جیکٹ اور اجرک لے کر آگیا جو وہ پہلے معاذ کے گھر سے لے کر گیا تھا۔ اس کے بعد چاروں اسی مقام پر سو گئے۔ عبدالحفیظ پندرانی ہی وہ شخص تھا جس نے دونوں حملہ آوروں کوحملے کی صبح خود کش جیکٹ پہنائی تھی اور ساتھ ہی چلانے کا طریقہ بھی بتایاتھا ۔

چاروں افراد دو موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر وہاں سے نکلے اور تقریباسوا8 بجے خان پور شہر کے ایک ہوٹل پر پہنچ گئے جہاں سب نے چائے پی۔ اس کے بعد حفیظ اور دلاور دونوں خود کش حملہ آوروں کو تھوڑا آگے لے کر گئے اور عید گاہ کے پاس اتار دیا۔

عید گاہ کے پاس دونامعلوم اشخاص کھڑے تھے اور دونوں خود کش حملہ آوروں کو ان کے حوالے کردیا گیا۔جس کے بعد حفیظ اور دلاور وہاں سے چلے گئے۔ ان دونوں افراد نے عثمان اور عبدالرحمٰن سے عید گاہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس جگہ خود کش کرنا اور پھر وہ دونوں نامعلوم افراد دوسری طرف پیدل چلے گئے۔

اس واقعے کامقدمہ بھی گرفتارحملہ آورعثمان اوراس کے ساتھی عمراورعبدالحفیظ بروہی سمیت2نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا ۔

مزید خبریں :