خصوصی رپورٹس
20 فروری ، 2017

پشاور میں سفید زہر کی فروخت

پشاور میں سفید زہر کی فروخت

عادل پرویز
دودھ کو حیات کی بنیادی ضرورت کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا، انسان ہو یا جانور نوزائیدہ کی پہلی غذا دودھ ہوتی ہے، دودھ اوراس بنی اشیاء انسانی جسم کے لیے کیلشیم کی فراہمی کا سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ قدرت نے اس کی فراہمی کا وافر مقدار میں انتظام کیا ہے۔

اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دودھ کی اہمیت و افادیت کو مد نظر رکھ کر کئی محاورے بھی تخلیق ہوئے، مثلا’’دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘ یا ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘ وغیرہ

میں سوچتا ہوں کہ شاید ’’ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘ لکھتے وقت اس کے خالق کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہیں آیا ہو گا کہ ان کا لکھا محاورہ بھی ملاوٹ کے سمندر میں گم جو جائے گا، ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب غذائی اشیاء میں دودھ میں پانی کی ملاوٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔

سیانےکہتے ہیں کہ صرف خالص دودھ ہی صحت کی ضمانت ہے، ملاوٹ شدہ نہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خالص دودھ کہاں سے ملے گا؟ وہ زمانہ چلاگیا جب دودھ میں صرف پانی کی ملاوٹ ہوتی تھی لیکن اب تو پانی کے ساتھ ساتھ خطرناک کیمیکلز کی ملاوٹ بھی عام ہوچکی ہے، ایسا نہیں کہ یہ گھناؤنا کام کسی پسماندہ اور کم تعلیم یافتہ علاقوں میں ہو رہا ہو گا کہ جہاں غذائی اشیاء کے معیار کو چیک کرنے کا کوئی انتظام نہیں بلکہ ہر بڑے شہر میں یہ جرم ڈھکے چھپے انداز میں نہیں بلکہ سرعام کیا جا رہا ہے اور وہ بھی دھڑلے کے ساتھ ۔

پشاورمیں قائم خیبرپختونخوا کی پہلی ’’ملک ٹیسٹنگ لیبارٹری‘‘ کی رپورٹ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس شہر میں فروخت کیا جانے والا دودھ نہایت مضر صحت ہے، دودھ کا معیار چیک کرنے والی اس لیبارٹری کے انچارج اور ڈائریکٹر لائیواسٹاک پشاور ڈاکٹر معصوم شاہ نے ’جیونیوز‘ کو بتایا کہ دودھ میں فارمولین نامی کیمیکل شامل کیا جا رہا ہے، واضح رہے کہ فارمولین لاشوں کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیےاستعمال ہوتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ دودھ میں اس کو ملانے کا مقصد اسے زیادہ عرصے تک خراب ہونے سے بچانا ہے، کپڑوں میں کلف لگانے والا اسٹارچ، کپڑوں کی دھلائی کا ڈیٹرجنٹ کے علاوہ خطرناک کلورائیڈ اور کاربونیٹ جیسےکیمیکلز کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے جبکہ ان خطرناک ترین کیمیکلز کو چھپانے اور اس کے ذائقے کو بہتر کرنے کے لیے پکانے کا تیل، چینی اور گنے کا جوس ملایا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دودھ نما انتہائی مضر صحت چیز پنجاب سے لا کر پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع میں فروخت کی جا رہی ہیں اور اس کو وجہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کارروائی ہے،پشاور کی ملک ٹیسٹنگ لیباریٹری میں تین ماہ کے دوران 100کے لگ بھگ دودھ کے سیمپل چیک ہوئے جن میں سے 50 سیمپلز میں ملاوٹ ثابت ہوئی، یعنی ان میں سے 50فیصد انسانی صحت کے لیے نہایت نقصاندہ ہے، ان میں سے 39 میں آلودہ پانی اور دیگر سیمپلز میں کیمیکلز کی ملاوٹ پائی گئی۔

ویٹرنری ڈاکٹر عباس علی کا کہنا ہے کہ کیمیکل ملا یہ دودھ پینے سے انسانی معدے، گردے اور جگر کو نقصان پہنچ سکتا ہے، یہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔

ستم یہ کہ ایک عام آدمی کے لیے خالص اور کیمیکل ملے دوددھ میں فرق کرنا آسان نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہری بھی اس تمام صورت حال سے پریشان ہیں، پشاور کے شہری جاوید احمد نے شکایت کی کہ بچوں کے لیے خالص دودھ کا حصول ایک مشکل کام بن گیا ہے،انہوں نے سوال کیا کہ شہری بچوں کو کیمیکل ملے دودھ سے کیسے بچائیں اس کا جواب ہمیں کون دے گا؟

ایک خاتون نویدہ قیوم نے بتایا کہ بیماری کے باعث انہیں کم از کم دو گلاس دودھ روزانہ پینے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ دودھ ان کی خوراک کا لازمی حصہ ہے۔

پشاور میں ضلعی حکومت نے ملک ٹیسٹنگ لیباریٹری دسمبر 2016ء میں محکمہ لائیو اسٹاک پشاور کی زیرنگرانی قائم کی جبکہ ضلع ناظم پشاور محمدعاصم نے مزید دو لیبارٹریز کے قیام کے لیے ایک کروڑ سے زائد رقم دینے کا وعدہ کیا ہے، یہ لیبارٹریزجی ٹی روڈ اور بڈھ بیر میں بنیں گی تاکہ پنجاب سے آنے والا دودھ موقع پر ہی چیک کیاجاسکے، تاہم موجودہ لیبارٹری کے انچارج نے بتایا کہ انہیں مزید ضروری مشینوں کی خریداری کے لیے ضلع ناظم صاحب نے 50 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ رقم تاحال جاری نہیں کی گئی۔

مضر صحت دودھ کی فروخت روکنے کے لیے ضلعی انتظامیہ دودھ فروشوں کےخلاف کارروائیاں کرتی رہتی ہے اور 10ہزار لیٹر سے زیادہ ملاوٹ شدہ دودھ ضائع کیاجاچکا ہے۔

اسسٹنٹ ایڈیشنل کمشنر عبدالنبی نے بتایا کہ اب تک 50سے زائد دودھ فروشوں کو گرفتارکیا گیا جبکہ ا تنی ہی تعداد میں دودھ فروشوں کوجرمانے بھی کئے گئے، یہ کارروائیاں دلہ زاک روڈ، چارسدہ روڈ، غریب آباد، اندرون شہر کاکشال اور ملحقہ علاقوں میں کی گئیں۔

عبدالنبی کا کہنا تھا کہ دودھ ہی نہیں بلکہ اس سے بننے والی دیگر اشیاء جیسے دہی، مکھن، آئس کریم اور کھیربھی ملاوٹ سے پاک نہیں۔

ڈائریکٹر جنرل لائیواسٹاک خیبرپختونخوا شیر محمد کے مطابق صوبے کے دیگر 24 اضلاع میں بھی پشاورکی طرز پر ملک ٹیسٹنگ لیبارٹریاں بنائی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اسٹاف کی تربیت کا آغاز کر دیاگیا ہے اور فنڈز ملتے ہی لیبارٹریاں قائم کردی جائیں گی۔

ایک اندازے کے مطابق پشاورمیں روزانہ 50ہزار لیٹر سے زیادہ دودھ فروخت ہوتا ہے لیکن معصوم شہری یہ نہیں جانتے کہ وہ دودھ جیسی صحت بخش غذا اپنے اہل خا نہ کو پلا رہے ہیں یا دودھ نما سفید زہر۔

مزید خبریں :