08 مارچ ، 2017
پاکستان میں کئی ایسے قوانین موجود ہیں جو کسی نہ کسی طرح خواتین کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں لیکن اپنی نوعیت میں منفرد ہونے کی وجہ سے اب بھی دفاتر اور کام کی دیگر جگہوں پر خواتین کو ہراساں کئے جانے سے تحفظ کے حوالے سے بہت سی باتیں لوگوں کو نہیں معلوم اور یہی وجہ ہے کہ اب تک اس قانون سے مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھا یا جا سکا۔
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مضبوط پوزیشن پر کام کرنے والی خواتین ہراساں نہیں ہوتیں جبکہ سرویز کے مطابق پاکستان میں ترانوے فیصد خواتین کام کی جگہ پر ہراساں ہوتی ہیں اور صرف سات فیصد شکایات درج کرواتی ہیں ۔ خواتین کے شکایت نہ کرنے کی وجہ ہماری معاشرتی سوچ تو ہے ہی لیکن بہت سے لوگوں کو شکایت کو طریقہ کار بھی نہیں معلوم ہوتا۔
طریقہ کار:
اس قانون کے تحت ہر ادارے میں اس مقصد کے لئے بنائی گئی کمیٹی میں شکایت درج کرائی جاتی ہے ۔ کمیٹی نہ ہونے کی صورت میں صوبائی اور اگر دفتر وفاق میں آتا ہو تو وفاقی محتسب کے دفتر میں براہ راست کمپلین کی جا سکتی ہے۔
کمیٹی کے فیصلے پر کوئی بھی پارٹی، متعلقہ محتسب کے پاس اپیل کر سکتی ہے اور ان کے فیصلے پر صوبائی سطح پر گورنر اور وفاقی لیول پر صدر پاکستان کے پاس اپیل کی گنجائش ہے۔
قانونی تقاضے:
اس قانون کے تحت ہر ادارہ ایک کمیٹی بنانے اور اس کا سربراہ مقرر کرنے کا پابند ہے جس کا کام شکایات سننا، تحقیق اور فیصلہ کرنا ہے۔ کم سے کم تین رکنی کمیٹی میں ایک خاتون کو ہونا لازمی ہے، سربراہ اس کے علاوہ ہے-
اس کے علاوہ ہر ادارے پر لازم ہے کہ متعلقہ پالیسی کونا صرف نمایاں مقام پرآویزاں کرے بلکہ تحریر بھی ان تمام زبانوں میں ہو جو زیادہ تر ملازمین سمجھتے ہوں۔
دائرہ کار:
بہت سے لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قانون صرف ان خواتین کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو دفاتر میں کام کرتی ہیں لیکن در حقیقت اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔
ڈائریکٹر مہر گڑھ ملیحہ حسین :
’مرد اور طالب علموں پر بھی اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے اور اگر کسی ادارے میں وزٹ کرنے والے کو اس ادارے کا کوئی ملازم ہراساں کرتا ہے تو اس کے خلاف بھی شکایت درج کروائی جا سکتی ہے کیونکہ شکایت کرنے والے کا ملازم ہونا لازم نہیں ہے۔ـ‘
ہراسمنٹ ایک انتہائی سنجیدہ اور حساس مسئلہ ہےاور اس طرح کے معاملات میں برقرار رکھنا بہت اہمیت رکھتا ہے اسی لئے پینل کورٹ کے بجائےعلیحدہ سے محتسب کے دفاتر بنائے گئے جہاں صرف کام کی جگہ پر ہراساں کرنے سے متعلق کیسس سنے جاتے ہیں اور ان پر فیصلہ بھی ہوتا ہے۔
وفاق ، سندھ اور پنجاب میں قائم یہ دفاتر اپنا کام کر رہے ہیں۔
محتسب سندھ سید پیر علی شاہ:
"ہم چاہتے ہیں کہ پراسس کو آسان بنایا جائے ،اس لئےہم نے ہر ضلع میں شکایتی مراکز قائم کئے ہیں ۔آگہی مہم کے تحت اب تک قریب ایک سو بیس اداروں کے کمیٹی ارکان کو ٹرین کیا جاچکا ہے اور اس کے علاوہ صوبے بھر میں ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد ایک جاری عمل ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس سے فائدہ ہو سکے "
مسائل:
دو ہزار دس میں اس قانون کو فوری طور پر پورے ملک میں نافذ العمل ہونا تھا لیکن بد قسمتی سے بلوچستان اور کے پی کے میں اب تک ان دفاتر کا قیام ممکن نہیں ہو سکا ہے متعلقہ محتسب سوموٹو نہیں لے سکتے اور نہ ہی کسی ایسے ادرے کے خلاف کاروائی کر سکتے ہیں جس نے قانونی تقاضے پورے نہ کئے ہوں۔ ان اختیارات کے نہ ہونے کی وجہ سے محتسب اداروں کو پابند نہیں کرسکتے ۔؎
اس قانون کے نام سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف خواتین کے لئیے ہے
تجاویز:
•خواتین کے عالمی دن کے موقع پر حکومت سے درخواست کی جاتی ہے کہ بلوچستان اور کے پی کے میں بھی ان دفاتر کا قیام جلد از جلد ممکن بنایا جائے تاکہ وہاں کے ملازمین کو بھی وہ قانونی تحفظ مل سکے جو وفاق ، پنجاب اور سندھ میں حاصل ہے
•اس مقصد کے لئے مختص کئے گئے محتسب کے اداروں کو اس بات کا اختیا ر بھی دیا جائے کہ جن اداروں میں کمیٹی نہیں ہے ، وہ تو ان کے خلاف کاروائی کر سکیں۔
•اگر کہیں ایسا واقعہ ہو جائے تو اس پر سو موٹو لینے کا اختیار بھی وفاقی اور صوبائی محتسب کے پاس ہونا چاہئے تاکہ سماجی پریشر کی وجہ سےکسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو سکے۔