خصوصی رپورٹس
10 مارچ ، 2017

سبینا کھتری ،لیاری کےباسیوں کیلئے اُمید کی کرن

سبینا کھتری ،لیاری کےباسیوں کیلئے اُمید کی کرن

لیاری،کراچی کا وہ علاقہ جوزیادہ اچھی شہرت نہیںرکھتا ۔ یہ سیاسی عدم توجہ کاشکارتو ہے ہی ، یہاںکے باسی زندگی کی بنیادی سہولیات سےبھی محروم ہیں لیکن یہاں کی بہت سی خصوصیات بالکل انفرادی ہیں اور انہی حوالوں سے لیاری کا ایک روشن پہلو سامنے آتا ہے۔

ان روشن پہلوؤں میں ایک ایسے تعلیمی ادارے کا قیام بھی سرفہرست ہے جو اپنے آپ میں کئی ’کمالات ‘رکھتاہے ۔یہ ہے ’کرن اکیڈمی ‘

’کرن اکیڈمی ‘ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہاں بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کی بھی اصلاح کی جاتی ہے ۔

اس مشکل کام کی ذمے د اری سبینا کھتری نے اٹھائی اور وہ کردکھایا جسے کبھی ناممکن سمجھا جا تا تھا۔سبینا کا خاندان کی تقر یباً15سالوں سے سبینا کی شانہ بشانہ امداد کر رہاہے۔ چھ سال سبینا اور اکیڈمی کے لئے سخت جدوجہد کرنا پڑی تاہم اس کے بعد یہ ادارہ لیاری کے باسیوں کے لئے اُمید کی ایک نئی کرن بن کر ابھرا اور آج اس کی بدولت تعلیم کے انگنت چراغ روشن ہوچکے ہیں ۔کئی عالمی ادارے اکیڈمی کی کوششوں کو سراہا چکے ہیں۔

سبیناکا کہنا ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ماںباپ کی اصلاح بھی ضروری ہے۔ بچوں کیلئے گھر کا ماحول ٹھیک ہونا بہت زیادہ اہمیت کا باعث ہے۔ان کے نزدیک’’ بچوں سے پہلے والدین کا طرزِ زندگی اور سوچ کا مثبت ہونا بھی نہایت اہم ہے۔

اکیڈمی کی شروعات20 بچوں سے ہوئی تھی اوراب ایک سو سے زائد بچے یہاں زیرتعلیم ہیں اور اس کی نئی برانچز نئے ناموں سے کھولی گئی ہیں جہاں بچوں کو نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں جیسے میوزک،ڈانس،کھیل کود کےبھی مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔

اکیڈمی کی نئے سرے سے شروعا ت کرنے سے پہلے سبینانے ارد گرد کا ماحول تبدیل کیا۔ورنہ لیاری میں داخل ہوتے ہی خوف محسوس ہونے لگتا تھا لیکن آج بغدادی کے بعد کا علاقہ لیاری کی ایک نئی اور منفرد تصویر پیش کرتا ہے۔

سبینا کھتری کا کہنا ہے کہ ابتدا میں جب انہوں نے اکیڈمی شروع کی تو یہاںکے رہائشی12سے13 سال کی عمر کے بچوں تک کو اپنا نام ٹھیک سے نہیں لکھنا آتا تھا۔وہ مزید کہتی ہیں’’میں خط غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے والے خاندانوں کے بچوں کو تعلیم دینا چاہتی تھی کیوں کہ لوگوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے بچوں کو پڑھانے کا رجحان کم تھا ۔‘‘

درمیانی عرصے میں سبینا نے اپنی انتھک محنت سےدینی تعلیم کے ساتھ ساتھ باآسانی اور روانی سے انگریزی بولنا سکھائی جن بچوںکے گھروں میں مادری زبا ن تک بھی ٹھیک سے نہیں بولی جاتی تھی۔ان بچوں کے والدین یا تو بے روزگار تھے یا بامشکل اُنھیں دو وقت کی روٹی مہیا ہوپاتی تھی۔

سبینا کی محنت سے جب اِن والدین کو اپنےبچوں کا مستقبل روشن دکھائی دیا تو اُن کے اندر بھی محنت کا جذبہ اُجاگر ہوا ۔

سبینا کا کہنا ہے کہ والدہ کے مقابلے میں جب وہ اُن بچوں کے والد سے بات کرتیں ہیں تو زیادہ پُر اثر ثابت ہوتا ہے کیونکہ والد کا گھر کا ماحول بدلنے میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔

اس ادارے کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ قطر نے بھی اس ادارے میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئےکچھ شرائط پر مالی امداد کی پیشکش کی تھی مگر سبینا کووہ شر ائط منظور نہ ہوئیں۔

آنے والے وقتوں میں سبینا ’کرن ہومز‘ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جہاں اُن بچوںکو جنھیں وہ 2سے3سال کے عرصے کے بعد دوسرے اسکولوں میں ایڈمیشن دلواتی ہیں اُنھیں اسکول کے بعد واپس اُن کے گھروں کے بجائے’کرن ہومز‘ لایا جاسکے تاکہ اُن پر گھر یلو ماحول کا اثر کم سے کم ہو۔

لیاری جیسے علاقے میں اِس طرح کےاِداروں کا انعقاد خوش آئند اور قابلِ ستائش بات ہے۔حکومت کو چاہئے کہ اِس طرح کی سرگرمیوںکو سراہنے کے ساتھ ساتھ ان میںاپنا کلیدی کردار بھی اداکرے۔

 

مزید خبریں :