خصوصی رپورٹس
18 اپریل ، 2017

مشعال شروع سے ہی غیر معمولی بچہ تھا: والد

مشعال شروع سے ہی غیر معمولی بچہ تھا: والد

میں نے جب پہلی مرتبہ مشعال کو دیکھا تو وہ ایک کمبل کے اندر لپٹا ہوا تھا، یہ سال 1992ء تھا، مجھے خدا نے ایک خوبصورت تحفہ میرا اپنا بیٹا مشعال خان جو عطا کیا تھا۔

وہ شروع سے ہی ایک غیرمعمولی بچہ تھا، ہمیں اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ تعلیم کے میدان میں بہت آگے جائے گا، اسے پڑھنے ، لکھنے سے محبت تھی، سیکھنے سے لگاؤ تھا۔

جب وہ نوجوان تھا تو ہمیں اس کے اسکول سے اس کی کارکردگی رپورٹ ملا کرتی تھی جسے دیکھ کر میرا سینہ چوڑا ہو جایا کرتا تھا، پھر جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے چلا گیا تو ہمارا گھر بالکل خالی محسوس ہونے لگا۔

میں نے آخری مرتبہ مشعال کو اس وقت دیکھا تھا جب وہ دوبارہ کالج جانے کے لیے اپنے کپڑے رکھ رہا تھا، مجھے یاد نہیں کہ اس نے اس دن کیا کچھ کہا تھا، مجھے اس کے الفاظ یاد نہیں مگر مجھے اس کے چہرے پر موجود مسکراہٹ ضرور یاد ہے، وہ بہت خوش تھا۔

مشتعل مجمع کا شکار ہونے سے 4روز قبل اس نے مقامی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیاتھا، مجھے بتایا گیا ہے کہ سچ بولنا اس کی موت کی وجہ بنی۔

اس نے وائس چانسلر کی غیر موجودگی کی شکایت کی تھی، بہت سے طالبعلم وائس چانسلر کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے گریجویٹ نہ ہو سکے تھے۔

اس نے کالج کی فیس میں کمی کا بھی مطالبہ کیا تھا، عبدالولی خان یونیورسٹی کے اساتذہ ایک سے زائد عہدوں پر تعینات تھے جس کے انہیں پیسے ملتے تھے، مجھے بتایا گیا ہے کہ وہی اس پر الزام لگانے میں ملوث ہیں۔

جن پر میں نے بھروسہ کیا کہ وہ میرے بیٹے کو تعلیم دیں گے انہوں نے اسے قتل کر دیا۔

تیرہ اپریل کو سہ پہر چار بجے مجھے ایک رشتہ دار کا فون آیا کہ یونیورسٹی میں جرنلزم کے طلبا میں لڑائی ہوئی تھی، مشعال بھی اس میں زخمی ہوا تھا۔

میں نے فوری طور پر اپنے دوسرے بیٹے کو فون کرکے دریافت کیا کہ آخر ہوا کیا ،ہے ایک گھنٹے کے بعد میرے بیٹے نے مجھے فون کیا اور کہا کہ میں یہ کیسے بتاؤں، میرا بھائی،آپ کے بیٹے کا قتل ہو گیا ہے۔

مشعال کو فائرنگ کرکے قتل کرنے سے قبل طالبعلموں کے ایک ہجوم نے اس کا تعاقب کیا تھا۔

اس وقت سے پولیس نے کچھ نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے، کیا میں نے انہیں دیکھا ہے؟ نہیں، اس سے کیا فرق پڑے گا۔

مجھے اپنے پیارے ملک کی حکومت سے صرف ایک بات کہنی ہے کہ انصاف ہونا چاہیے، میں جانتا ہوں کہ انصاف ہونے سے میرا بیٹا مشعال واپس نہیں مل سکتا، مگر پھر بھی میں تمام سیاسی تنظیموں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اپنے اور میرے بچوں کے لیے ایک ہو جائیں، آئیے ایک بلند اور واضح پیغام دنیا کو دیں،تاکہ کوئی بھی اسکول جانے سے نہ گھبرائے۔

مشعال کے قتل کے بعد ایک دن میرے بھائی نے مجھے فون کیا، اس نے کہا کہ اس کے بیٹے کا نتیجہ اچھا آیا ہے اور اب وہ کالج جانا چاہتا ہے، میرے بھائی نے اس کی حوصلہ شکنی کی، اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ 'یونیورسٹی مت جاؤ، وہ بچوں کو مار دیتے ہیں۔

تقریباً ایک ہفتہ ہو گیا ہے، بہت سے لوگ میرے پاس تعزیت کے لیے آئے ہیں، مگر حکومت کی جانب سے کوئی بھی میرے پاس نہیں آیا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کے باوجود لوگوں میں شعور بڑھ رہا ہے، میں نے یہ ٹی وی پر دیکھا ہے، اپنے علاقے میں یہ دیکھا ہے، لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مشعال بے گنا تھا۔

مجھے یقین ہے کہ اس تاریکی کے پار ایک روشنی موجود ہے، اگرچہ میرا بیٹا واپس نہیں آ سکتا مگر اس کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی۔

یہ تحریر مقتول مشعال خان کے والد نے جیو ڈاٹ ٹی وی کو بھیجی ہے۔

 

مزید خبریں :