28 اپریل ، 2017
2017کی مردم شماری کے بعد کراچی کی آبادی تقریباً دو کروڑ 40لاکھ تک پہنچ جائے گی اگر سب کچھ ٹھیک رہا اور الیکشن کمیشن نے شہر سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافے کا فیصلہ کرلیا تو آئندہ انتخابات میں انتہائی دلچسپ سیاسی جنگ کا مشاہدہ کیا جاسکے گا تاکہ ’’الطاف فیکٹر‘‘ سے پیدا خلا کو پر کیا جاسکے۔
اس وقت قومی اسمبلی کی 20اور سندھ اسمبلی کی 42نشستوں کے لیے دوڑ ہے۔ ان میں سے اکثر ایم کیو ایم نے 2013کے عام انتخابات میں جیتیں۔ لیکن اب یکے بعد دیگرے دھڑے بندیوں کے بعد اب دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے کھلی جگہ ہے۔
پاکستان کی سیاست خصوصاً 1988کے بعد سے بڑی حد تک اپنی نوعیت کے اعتبار سے نسلی اور لسانی رہی ہے۔ اس بار انتخابات میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں آئے گی؟ یہ سب کے لیے بڑی آزمائش ہوگی۔ امکان یہی ہے کہ اس بار تین دہائیوں کی مہاجر سیاست کے بعد یہ ’’کراچی کی سیاست‘‘ میں کروٹ لے گی۔
یہ نئی سیاسی جماعت پاکستان سر زمین پارٹی، نئی شکل میں ایم کیو ایم پاکستان ہی کے لیے نہیں بلکہ عمران خان کی تحریک انصاف کے لیے بھی آزمائش ہوگی جس نے 2013کے عام انتخابات میں کراچی سے تقریباً 8لاکھ ووٹ لیے لیکن کمزور انتظامی ڈھانچے کے باعث اس حمایت سے محروم ہوگئی۔
کراچی جماعت اسلامی یا پیپلز پارٹی کے دور میں لوٹ کر جاسکتا ہے۔ یہ جماعتیں اپنی کارکردگی بہتر بناکر تاریخ مرتب کرسکتی ہیں۔
کراچی کا ووٹ اردو بولنے والوں اور غیر اردو داں میں منقسم ہے۔ اردو بولنے والوں کا ووٹ تحریک انصاف، مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی میں مزید تقسیم ہوسکتا ہے۔ بعض معاملات میں انتخابی حلقے بھی ان ہی خطوط پر تقسیم ہیں۔ لہٰذا انتخابات کے روز جس پارٹی کا تنظیمی نیٹ ورک مضبوط ہوگا وہ جیت جائے گی۔
ایم کیو ایم لندن کے سوا تمام جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انتخابات میں شرکت کا کھلا موقع ملے گا، ان کی توجہ کراچی پر مرکوز ہوگئی ہے۔ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، پاکستان سر زمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان جلسے کررہے ، جلوس نکال رہے اور احتجاجی دھرنے دئیے بیٹھے ہیں۔
تحریک انصاف نے بھی عمران خان کی قیادت میں حقوق کراچی ریلی نکالنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس خلا اور گنجائش نے قومی سیاسی جماعتوں کی توجہ کراچی کی جانب مبذول کرائی ہے۔ تاریخی اعتبار سے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ جس کے لیے بڑی گنجائش تھی لیکن اس نے کراچی میں پارٹی کو کبھی منظم نہیں کیا۔
کراچی تب ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ایوب خان مخالف تحریک میں شامل ہوگیالیکن مہاجرین مسلم لیگ کا رخ کرنے کے بجائے جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان کی طرف چلے گئے۔
1970کے عام انتخابات میں دو قومی اور 8سندھ اسمبلی کی نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کراچی سے تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ 1970کی دہائی میں کراچی اور حیدرآباد سمیت شہری سندھ میں پیپلز پارٹی کے سامنے جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان ہی مرکزی اپوزیشن جماعتیں رہیں۔ لیکن لسانی بل نے مہاجر سندھی تقسیم کو جنم دیا۔
1977سے 1987تک کراچی کی مقامی حکومتیں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے کنٹرول میں رہیں جہاں ان کے میئر اور ڈپٹی مئیر کامیاب ہوتے رہے۔ لیکن 1988سے 2013تک کراچی پر کسی بھی سیاسی جماعت کی وہ گرفت نہیں تھی جو ایم کیو ایم کی رہی۔
ایم کیو ایم سے پہلے کراچی کا مینڈیٹ جماعت اسلامی، جمعیت علما پاکستان اور پیپلز پارٹی میں تقسیم رہا۔ 1987میں ایم کیو ایم نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات بلا شرکت غیرے جیت لئے۔ ایم کیو ایم کی سیاست جہاں مذہبی جماعتوں کو بہا کر لے گئی پیپلز پارٹی نے پھر بھی اپنی محدود گنجائش کو برقرار رکھا۔
اکثر کی رائے میں ایم کیو ایم میں دھڑے بندیوں کے اپنی طرز سیاست اور اندرونی اختلافات کے باعث وہ خود ہی ذمہ دارہیں۔ اب خصوصاً کراچی آپریشن کے بعد اب تمام جماعتوں کے لیے کراچی میں سیاست کرنے کی گنجائش نکل آئی ہے۔
یہ ایم کیو ایم پاکستان کی بھی کڑی آزمائش ہے جو اپنے اندرونی بحران کے بعد رائے عامہ سے پہلی بار رجوع کرے گی۔ پی ایس پی کا کراچی کے حقوق کے لیے دھرنا 19دنوں تک جاری رہا۔ اب وہ 16 مئی کو ملین مارچ کرنے جارہی ہے لیکن ایم کیو ایم کی طرح پی ایس پی کو اپنی حمایت ووٹ میں بدلنے کے چیلنج کا سامنا ہے۔
شخصیات کے ٹکرائو کے سوا ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کی بنیادی سیاست، ایجنڈے اور پروگرام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کا انضمام یا اتحاد دوسری جماعتوں کے لیے بری خبر ہوگی۔
کراچی جسے منی پاکستان قرار دیا جاتا ہے، اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی ’’اونر شپ‘‘ کا فقدان ہے۔ الطاف حسین فیکٹر ٹوٹ کر جانے والوں کو ابھی بھی پریشان کرتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ان کی طرز سیاست دم توڑتی جارہی ہےلیکن پاکستان کے اقتصادی حب کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ اب بھی ووٹرز کے لیے کلید ہے۔
35سال میں پہلی بار نائن زیرو، خورشید بیگم میموریل ہال اور جناح گرائونڈ میں یا اس کے اطراف کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہوگی۔ اس کا ووٹنگ رجحان پر کیا اثر مرتب ہوگا، اس کی اپنی اہمیت ہوگی۔
یہ کراچی کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کی اونر شپ کی بھی جنگ ہوگی۔ بہتر نیٹ ورک کے ساتھ کراچی سے وابستگی کے احساس کو اجاگر کرے گا۔ وہ جیت جائے گا۔