03 مئی ، 2017
پاکستان شعبہ صحافت کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شامل ہوگیا ہے ،15 سال میں 117صحافیوں کو نہ صرف شہید کیا گیا بلکہ اغوا یا ہراساں کرنا معمول بن چکا ہے ۔
حملے ، دھمکیاں ، اغوا ،جبری برطرفیاں ، تنخواہوں کی عدم ادائیگیاں ،یہ وہ حالات ہیں جن میں پاکستان کے صحافی اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے لوگوں کو با خبر رکھنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان صحافت کے لیے خطرناک ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے ۔
گزشتہ 15 سال میں 117 صحافیوں کو قتل کیا گیا اور ان میں سے صرف تین کے مقدمات چلے۔معروف صحافی عاصمہ شیرازی کہتی ہیں حالات تو نہیں بدلے لیکن صحافی حق اور سچ عوام تک پہنچانے کے لیے اپنے محاز پر ڈٹے ہیں ۔
قلم کا علم بلند رکھنے کے لیے اپنے جسم پر 6 گولیاں کھانے والے سینئر صحافی حامد میر کہتے ہیں پاکستان میں صحافت ا تنی ہی آزاد ہے جتنی پارلیمنٹ ، اب توہین مذہب کا نیا ہتھیا رآگیا ہے جس کی تلوار صحافیوں کے سروں پر بھی لٹک رہی ہے ۔
صحافیوں کے حقوق کےتحفظ کے لیے قانون سازی کامطالبہ کئی سال سے کیا جا رہا ہے اور اس کے وعدے بھی مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
عالمی یوم صحافت پرایک پیغام میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان میں صحافت آزادہے ،شعبہ صحافت مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار ہے اور صحافی جرات اور بہادری کے ساتھ سچائی عوام تک پہنچا رہے ہیں ۔جمہوریت کو پروان چڑھانے اور جمہوری اداروں کو مستحکم بنانے میں بھی میڈیا کا اہم کردار ہے ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت معاشرے کے سدھار میں صحافیوں کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ان صحافیوں کو سلام پیش کرتی ہے جنہیں پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید کیا گیا ۔