26 مئی ، 2017
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے لئے پاکستان کرکٹ ٹیم کا قیام انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں ہے۔اسی شہر میں پاکستان کے لئے 57ٹیسٹ اور 10ون ڈے کھیلنے والے 73سال کے مشتاق محمد اپنے بیٹا و بیٹی کے ہمراہ کئی سال سے رہائش پذیر ہیں۔
لاہور میں 1959ء میں صرف 15سال کی عمر میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے مشتاق محمد سے جب پی سی بی کے معاملات پر سوال کیاگیاتو وہ بولے ’ہمارے زمانے میں بورڈ کرکڑز کے ہاتھوں میں ہوا کرتا تھا،اب وہ لوگ کرکٹ بورڈ چلا رہے ہیں جو کرکٹ کو نہیں جانتے۔‘
قومی ٹیم کے کوچنگ اسٹاف کو ہی لے لیجئے ، اگر فیلڈنگ کوچ، بولنگ کوچ اور بیٹنگ کوچ ہے تو پھر ہیڈ کوچ کیا کر رہا ہے،اتنے سارے کوچز پر فضول میں پاکستان کرکٹ بورڈ پیسہ خرچ کر رہا ہے۔ہمارے زمانے میں تو کوچ ہوتا ہی نہیں تھا۔
چلیں پرانے زمانے کی بات چھوڑیں 1999کے ورلڈ کپ میں جب میں قومی ٹیم کا کوچ بنا ،تب میرے ساتھ صرف رچرڈ پائی بس تھا، سارا کام ہم دونوں کیا کرتے تھے۔اب تو کوچز کی بھیڑ چال ہے،کچھ سوال کرو تو کہتے ہیں ،یہ نیا زمانہ ہے ،ہر ٹیم کے ساتھ اتنے کوچز ہوتے ہیں لیکن جب پرفارمنس کی بات کرو تو مجھے کچھ نتائج نظر نہیں آتے۔‘
مکی آرتھر کے سوال پر مشتاق محمد بولے’ممکن ہے کچھ اچھا ہو تب ہی پی سی بی نے اس کی خدمات سے استفادہ کیا ہےلیکن حقیقت یہ ہےکہ ہےکوچ جو بھی ہو اسے کرکٹ کی سمجھ ہونی چاہیے۔ٹیکنیکل انداز میں اس کی سمت درست ہونے چاہیے۔آج تو ہیڈ کوچ کا کام محض ایک سپروائزر سے زیادہ دکھائی نہیں دیتا۔
مکی آرتھر سے اچھے اور قابل تو ہمارے سابق کرکڑز ہوںگےجو کام مکی آرتھر کر رہا ہے ،وہ ہمارے سابق کرکڑز نہیں کر سکتے کیا؟ ان میں کرکٹ کی سمجھ نہیں ہے؟اس سوال پر کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے آپ کی خدمات سے استعفادہ نہیں کیا؟
مشتاق محمد ہنستے ہوئے بولے بھئی جب ہماری بات آتی ہے تو کہتے ہیںیہ تو پرانے ہوگئے ہیں۔مشتاق محمد کا خیال ہے کہ یہ کہنا غلط بھی نہیں ،لیکن درست میرے جسم میں پہلی والی طاقت نہیں اور میں کون سا کہہ رہا ہوں کہ مجھے قومی ٹیم کا کوچ لگا دیں۔میں سمجھتا ہوں ،جونیئرز کرکڑز کو اپنے تجربے سے میں بہت کچھ منتقل کر سکتا ہوں ۔اگر کوئی سمجھے۔میں برمنگھم میں خوش ہوں ،شام کو بچوں کی کوچنگ کرتا ہوں ۔
بطور کپتان سرفراز احمد کے سوال پر 31ٹیسٹ اور پانچ ون ڈے میں قومی ٹیم کی قیادت کرنے والے سابق کپتان کا کہنا تھا ’ سرفراز ایک بہترین کرکڑ ہے،اسے اعتماد دینے کی ضرورت ہے، محض ایک دو میچوں کی بنیاد پر اس کے بارے میں رائے بنانا گھاٹے کا سودا ہوگا۔
کیا چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان ٹیم چیمپئن بن سکتی ہے؟ مشتاق احمد کا جواب تھا،یہ ایک کمزور ٹیم ہے جو سیمی فائنل تک پہنچ گئی تو بڑی بات ہوگی۔