25 جولائی ، 2017
35 سال قبل جب میں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا، میں نے جنگ گروپ میں بطور ایک رپورٹر شمولیت اختیار کی۔ زندگی کے اس موڑ پر میں نے کریئر کے بارے میں زیادہ سوچ بچار نہیں کی تھی لیکن اس کے باوجود میں روزانہ جنگ کے دفتر اور اپنی کلاسوں کو جاری رکھے ہوئے تھا۔
سن 2002 میں جیو ٹیلی ویژن کے لانچ پر میں نے پرنٹ سے الیکٹرانک میڈیا پر چھلانگ لگادی جس سے بطور صحافی میری پروفائل میں چار چاند لگ گئے۔
مجھے کئی مرتبہ بتایا جاچکا ہے کہ کسی خبر کو بتانے کا میرا انداز دوسروں سے مختلف ہے۔ شاید یہ بات درست ہے کیوں کہ میری نظر میں کوئی خبر چھوٹی نہیں۔
مجھے اپنا کام اس وقت ہی مکمل لگتا ہے جب میری جانب سے اٹھائے گئے کسی مسئلے پر مناسب کارروائی کی جائے۔ مثال کے طور پر کچھ سال قبل میں نے ایجوکیشن بورڈ پر ایک خبر کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک گاؤں میں یتیموں کو امتحان دینے سے روکا جارہا ہے کیوں کہ وہ اپنے پیدائشی سرٹیفیکیٹ پیش کرنے میں ناکام رہے۔
اس خبر کے نشر ہونے کے ایک روز بعد صوبائی حکومت نے متعلقہ افسران کو سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے احکامات جاری کیے۔ وہ پہلا سال تھا جب میٹرک کے امتحانوں میں ان طالب علموں کو بیٹھنے کی اجازت دی گئی۔
مجھے کئی مرتبہ کہا جاچکا ہے کہ میں صرف غیر سنجیدہ خبروں پر کام کرتا ہوں۔ یہ درست نہیں ہے۔ حال ہی میں میں نے پنجاب پولیس کے سینئر افسران کی جانب سے جعلی نمبر پلیٹ استعمال کرنے کی خبر شائع کی تھی اور اس حوالے سے ہونے والی تنقید کے لیے بھی میں تیار تھا تاہم خوشی قسمتی سے افسران نے اپنی نمبر پلیٹس جلد تبدیل کردیں۔
جہاں تک طنز و مزاح کو اپنی رپورٹ کا حصہ بنانے کی بات ہے، ایسا میں جان بوجھ کر کرتا۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کے کچھ مسائل ایسے ہیں جنہیں عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ایسے مسائل کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کے غرض سے میں ان خبروں کو مختلف انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
ایک مرتبہ میں نے پیٹرول کی قلت نمایاں کرنے کے لیے لاہور میں گھوڑے پر بیٹھ کر سفر کیا تھا۔ اسی طرح ایک مرتبہ جب میں پیس ٹو کیمرہ یا پی ٹی سی ادا کرنے لگا تو میرے ہاتھ میں موجود مچھلی پھسل گئی جس کی وجہ سے میرے اردگرد موجود افراد بے حد محظوظ ہوئے۔ میں اس پی ٹی سی کو دوبارہ بھی کرسکتا تھا لیکن میں نے اس فوٹیج کے ایڈیٹر سے اس کو میوزک کے ساتھ بار بار چلانے کو کہا۔
میں نے ایک بھینس کا انٹرویو بھی کیا جو کہ ایک پیدل چلنے والوں کے پل کا استعمال کررہی تھیں۔ یہ پیکج انٹرنیٹ پر جلد وائرل ہوگیا۔ لاہور شہر میں ان پلوں کی کمی کی جانب نشاندہی کے لیے اس سے بہتر میری نظر میں اور کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا تھا جس کے باعث لوگ تیز ٹریفک میں روڈ پار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
میں 1986 سے صحافی ہوں اور مجھے کوئی افسوس نہیں۔ اس دوران میں دہشت گرد حملوں، عدالتی کارروائیوں، سیاست، بارش اور دیگر امور پر رپورٹنگ کی ہے۔
مجھے لوگوں کی جانب سے اپنی خبروں پر آراء ملتی رہتی ہے۔ اس میں کچھ مثبت اور کچھ منفی ہوتی ہے لیکن جو بھی ہو میں خبروں کو رپورٹ کرنے کا اپنا انداز تبدیل نہیں کرنے والا۔