Time 08 ستمبر ، 2017
بلاگ

’بے بہا خوشی کی وزارت‘

ادب کی تخلیق یا اس کے مقاصد کے حوالے سے دنیا بھر میں ہونے والے بحث و مباحثوں کا سلسلہ صدیوں پرانا ہے۔ ادب پیدا کیوں ہوتا ہے؟ ادب کو کیسے تخلیق ہونا چاہیے؟ کیا ادب کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے؟ یا اس کا کوئی مقصد بھی ہونا چاہیے؟ ادب میں جمالیات کا عنصر کس حد تک ہونا چاہیے اور کس حد تک نہیں ہونا چاہیے؟

1917 میں روس میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہونے کے بعد پوری دنیا میں ادب میں مقصدیت ہونے یا نہ ہونے اور اس کے جانبدار یا غیر جانبدار ہونے پر دنیا بھر کے ناقدین کی جانب سے گرما گرم بحث ہوتی رہی۔

تاہم ادب کو لے کر ہونے والے ان نظریاتی مباحثوں میں ادبی ناقدین کی واضح اکثریت اس امر پر اتفاق کرتی ہے کہ ادب چاہے اپنے اندر مقصدیت رکھے یا نہ رکھے، حقیقت نگاری پر مبنی ہو یا نہ ہو، مگر اس سب کے باوجود ایک حد تک وہ اپنے عہد کا عکاس ضرور ہوتا ہے۔

عالمگیریت کے اس دور میں جہاں صحافت اور تعلیم جیسے مقدس شعبے بھی تیزی سے کارپوریٹ سیکٹر کی گرفت میں آنے کے باعث زوال پذیر ہو رہے ہیں ایسے میں ادب کا دامن بھلا اس کارپوریٹ سیکٹر کی چکا چوند سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے آج دیکھنے میں آرہا ہے کہ مختلف قومی اور بین الاقوامی ادارے "ادب کی سرپرستی" کے نام پر باقاعدہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر کوئی ناول نگار یا ادیب "فلاں فلاں" موضوع پر کتاب لکھے گا تو اسے اتنی رقم انعام میں دی جائے گی۔

مگر یہ دیکھ کر دلی خوشی اور اطمینان ہوتا ہے کہ ابھی بھی کارپوریٹ سیکٹر کی چکا چوند ادب کو مکمل طور پر اپنا مطیع نہیں کر پائی۔ اور یہ خوشی اس وقت دوبالا ہو جاتی ہے کہ جب کارپوریٹ سیکٹر یا سرمایہ داری نظام کی حقیقت کی عکاسی انگریزی زبان میں ہی سامنے آرہی ہو۔

بھارت کی معروف دانشور، ناول نگار، کالم نگاراور سماجی کارکن اروندھتی رائے نے جب 20 سال پہلے اپنا پہلا ناول "گاڈ آف سمال تھینگز" لکھ کر دنیا بھر میں شہرت حاصل کی تو ادبی نقادوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اروندھتی رائے کا یہ ناول اتنا بڑا شاہکار ہے کہ اب رائے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گی اور ایسا ہی ہوا۔

اروندھتی رائے نے بھارت کے منافقانہ جمہوری نظام، کرپشن، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، بھارت کے کئی علاقوں میں نکسل باغیوں کی مزاحمت، کشمیر اور شمال مشرقی علاقوں میں بھارتی فوج کے مظالم، غریب دلیت عورتوں کے حقوق سمیت دیگر کئی مسائل پر بھی لکھنا شروع کر دیا۔ تاہم ارون دھتی رائے کی تحریروں سے رغبت رکھنے والے افراد کو انتظار تھا کہ ارون دھتی رائے کا دوسرا ناول کب آئے گا؟

اب 20 سال بعد یہ انتظار ختم ہوا اور ارون دھتی رائے کا تازہ ناول ’’دی منسٹری آف اٹموسٹ ہیپینس‘‘ (The Ministry of Utmost Happiness) نظر عام پر آگیا۔ امید کے عین مطابق ارون دھتی رائے نے اس ناول میں سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کی بھر پور جمالیاتی عکاسی کی ہے۔

انجم اور تلوتما جیسے مرکزی کرداروں کے ذریعے بھارتی سماج کو درپیش مسائل کو اس جادوئی انداز سے پیش کیا گیا کہ عالمی شہرت یافتہ ادب کے ناقدین بھی سر ہلائے بغیر نہیں رہ سکے۔ انجم جو بنیادی طور پر ایک خواجہ سرا ہے اور تلوتما جو ایک سماجی کارکن ہے ان دو مرکزی کرداروں کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ کیسے بھارت کا معاشرہ تیزی سے عدم رواداری کا شکار ہوتا جا رہا ہے، 2002 کے گجرات فسادات نے کیسے سیکولرازم کو شدید نقصان پہنچایا اور گجرات میں سیکولرازم کو لگنے والی آگ کے شعلوں سے ہی ایک وزیر اعظم نکل کر سامنے آیا جو اب بھارتی سیکولرازم کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

کشمیر میں جاری کشیدگی کیسے عام کشمیروں کی سوچ کو متاثر کر رہی ہے۔ موسیٰ نام کا ایک کشمیری کردار جس کے خاندان کو بھارتی فوج نے ہلاک کر دیا، کس آگ میں سلگ رہا ہے۔

’’دی منسٹری آف اٹموسٹ ہیپینس‘‘ پڑھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ یہ ناول نہیں بلکہ ایک ایسا جادوئی پیالہ ہے کہ جو ایک پل کے لیے ہمیں کشمیر کے حالات دیکھائے گا تو اگلے پل ہم گجرات کے فسادات کو دیکھیں گے اور پھر نکسل باغی علاقوں کی صورتِ حال ہمارے سامنے آجائے گی اور اس سب کے درمیان کہیں کہیں دہلی کی سیر بھی ہو جایا کرے گی۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ برصغیر کے ایسے مسائل جن سے ایک عام آدمی کا روز واسطہ پڑتا ہے، ان پر یہاں کی مقامی اور علاقائی زبانوں میں تو بہت کچھ لکھا جا رہا ہے مگر انگریزی زبان میں تخلیق کئے جانے والے ادب میں دیگر موضوعات پر تو بہت توجہ دی گئی مگر حقیقت یہی ہے عام آدمی کے مسائل پر برصغیر میں انگریزی زبان میں لکھے گئے ادب میں کم توجہ دی گئی ہے۔

اس حوالے سے حالیہ دور میں بھارت میں اروندھتی رائے اور اروند اڈیگا جیسے کئی انگریزی میں لکھنے والے ادیبوں کی مثالیں تو پھر بھی مل جاتی ہیں مگر افسوس پاکستان میں اس نوعیت کی مثالیں کم ہیں۔

عمر جاوید جیو ٹی وی میں سینیر ریسرچر ہیں۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔