26 ستمبر ، 2017
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں حقائق جاننے اور رپورٹنگ کرنے والی ٹیم جیو کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔
ٹیم جیو کے رکن علی عمران سید اور عدنان یحیی روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں حقائق جاننے اور رپورٹنگ کرنے کے لیے ینگون پہنچے اور کئی روز سے وہاں رپورٹنگ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
ٹیم جیو نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور ان پر کئے جانے والے مظالم کو اجاگر کیا۔
علی عمران سید نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ میانمار کی سرحدی فورس جان بچا کر بھاگنے والے روہنگیا مسلمانوں پر اسٹن گیس اور مرچی والے اسپرے سے حملے کررہی ہے جب کہ نہتے لوگوں کو ہولوکاسٹ جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔
اس کے بعد سیکیو رٹی اہلکاروں نے علی عمران سید اور عدنان یحیی کا تعاقب کیا اور ان کے ہوٹل کی نگرانی کی جب کہ انہیں بار بار ہراساں بھی کیا گیا۔
دوسری جانب جیو کی رپورٹنگ ٹیم کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا اور انہیں اغوا کرنے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
نمائندہ جیو علی عمران سید کے مطابق سوشل میڈیا پر ان کی ایک تصویر جاری کی گئی جس میں وہ اپنے کیمرہ مین کے ساتھ ایک ہوٹل پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ دونوں جاسوس ہیں اور ان کا تعلق سولویشن آرمی (باغیوں) سے ہے۔
سوشل میڈیا پوسٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ دونوں جاسوس شیوا ڈگوم پاگوڈا (مقدس مقام) پر حملہ بھی کرسکتے ہیں۔
جیو کی ٹیم کے پاسپورٹ کی معلومات بھی سوشل میڈیا پر جاری کی گئیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی عام شخص کی کارروائی نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پوسٹ پر مقامی زبان میں کئے گئے تبصروں کا جب ترجمہ کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ لوگوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ ان دو افراد کو جہاں بھی دیکھا جائے فوری طور پر گاڑی کے نیچے دے کر کچل دیا جائے یا اغوا کر کے جان لے لی جائے۔
صورتحال کی سنگینی کو بھانپ کر ٹیم جیو کے ارکان جان بچا کر پاکستانی سفارت خانے پہنچے جہاں تمام تر صورتحال سے آگاہ کیا گیا جب کہ سفارتکار ڈاکٹر خالد میمن نے مشورہ دیا کہ آپ یہاں پناہ لئے رکھیں۔
میانمار کے سیکیورٹی اہلکاروں نے وہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور سفارت خانے کے اطراف موجود رہے اور اس کے بعد پاکستانی سفارت کاروں نے علی عمران سید اور عدنان یحیی کو ایئرپورٹ پہنچایا جو پہلی پرواز سے وطن واپس پہنچ گئے۔
ٹیم جیو کی رپورٹنگ
جیو کی ٹیم نے رپورٹنگ کے دوران بتایا تھا کہ میانمار میں ظلم و ستم سے گھبرا کر بنگلہ دیش کا رخ کرنے والے روہنگیائی مسلمانوں کا مستقبل غیر یقینی کی صورتحال کا شکار ہے۔
یہ روہنگیائی مسلمان بغیر کسی دستاویزات کے بنگلہ دیش پہنچے ہیں جہاں ان کے بارے میں معلومات اکھٹا کرنے کے لیے رجسٹریشن کا طریقہ استعمال کیا جارہا ہے۔
لمبی قطار میں گھنٹوں انتظار کے بعد کارڈ حاصل کرنے والے ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ ایک آفیشل نے یہ کہہ کر اسے ایک کارڈ تھما دیا کہ رکھ لو، کام آئے گا۔
وہ شخص اب بھی نہیں جانتا کہ اس کارڈ کا کیا مطلب ہے اور یہ صرف راشن کے کام آئے گا یا حقوق بھی دلائے گا۔