Time 12 اکتوبر ، 2017
بلاگ

ایک تصویر، کئی کہانیاں

اخبارات میں شائع ہونے والی ایک تصویر پر کافی دیر تک میری نظریں جمی رہیں۔ ایک بیمار عورت اسپتال کے بستر پر پڑی ہے اور اپنے سرہانے بیٹھے شوہر کو دیکھ رہی ہے۔ اس عورت کا نام بیگم کلثوم نواز ہے جو ان دنوں لندن میں زیر علاج ہیں اور ان کے شوہر نواز شریف تیمارداری کے لئے ان کے پاس موجود ہیں۔

اس تصویر نے مجھے ماضی میں دھکیل دیا اور مجھے وہ واقعات یاد آنے لگے جن میں بیگم کلثوم نواز نے ایک متحرک اور باہمت عورت کا کردار ادا کیا۔

1998ء میں اس ناچیز کی بیگم کلثوم نواز سے زیادہ شناسائی نہیں تھی لیکن شہباز شریف صاحب کے ذریعے پتہ چلا کہ اُن کی بھابھی میرا کالم باقاعدگی سے پڑھتی ہیں اور حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی سے اپنے شوہر کو آگاہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ 

یہ وہ دور تھا جب نواز شریف کے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تھی۔ اپنے بھاری مینڈیٹ کی طاقت سے انہوں نے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو زیر کر لیا تھا۔ فوج اور عدلیہ کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے بعد نواز شریف کی حکومت کچھ سرکش صحافیوں کو اپنا تابعدار بنانے کی کوشش میں تھی۔

شریف خاندان کی غیر ملکی جائیدادوں کے بارے میں کالم لکھنے کی پاداش میں ایک اخبار کی ادارت سے میں فارغ ہو چکا تھا اور دوسرے اخبار میں دو تہائی اکثریت کو آنکھیں دکھا رہا تھا۔

ان دنوں احتساب بیورو کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمان نے جنگ گروپ کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن شروع کیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے اخبار کا نیوز پرنٹ بندا کرا دیا گیا۔

ایک شام روزنامہ جنگ کی انتظامیہ نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ اخبار شائع کرنے کے لئے کاغذ نہیں ہے لہٰذا کچھ کاغذ ادھار فراہم کر دیا جائے تو تھوڑا سا اخبار شائع کرنا ممکن ہو جائے گا۔

میرے اخبار کی انتظامیہ نے جنگ کو کاغذ فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ جیسے ہی جنگ کو کاغذ فراہم کیا گیا تو سینیٹر سیف الرحمان کا فون آ گیا۔ انہوں نے مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ میں نے سنی اَن سنی کر دی لیکن اُسی رات موصوف نے ہمارے اخبار کی بجلی بند کرا دی۔

ہم نے ایک اور پریس سے اخبار چھپوایا اور جب صبح تین بجے اخبار نیوز ایجنٹوں میں تقسیم کیا جا رہا تھا تو آئی بی اور ایف آئی اے والوں نے حملہ کر کے اخبار کے بنڈل جلانے شروع کر دیئے۔

اسلام آباد کی آبپارہ مارکیٹ میں سینیٹر سیف الرحمان کے بندوق برداروں اور نہتے اخباری کارکنوں میں دست بدست جنگ ہوئی اور ہم اپنے کچھ بنڈل بچانے میں کامیاب رہے۔

اگلے دن سینیٹ میں چوہدری اعتزاز احسن نے ہمارے ساتھ ہونے والی غنڈہ گردی پر شدید احتجاج کیا۔ ملک بھر میں صحافیوں نے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیئے۔ یہ وہ موقع تھا جب بیگم کلثوم نواز نے میرے کہے بغیر ہی اپنے شوہر کے سامنے میرے لئے آواز بلند کی۔

اُنہوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ آپ حامد میر سے معذرت کریں۔ پھر ایک شام نواز شریف صاحب نے فون کیا اور مجھ سے معذرت کی۔ اس معذرت کے پیچھے ایک لمبی کہانی تھی جو شہباز شریف صاحب نے مجھے بتائی۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں دائیں ہاتھ کی انگلی گھماتے ہوئے اپنی بھابھی کی حق گوئی کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ صرف یہ ایک عورت ہے جو سیف الرحمان کی رعونت کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہے۔

شہباز شریف کو مجھ سے ہمدردی اس لئے تھی کہ سینیٹر سیف الرحمان اُن کا ٹیلی فون بھی ٹیپ کرایا کرتے تھے۔ نواز شریف صاحب کی معذرت کے بعد معاملہ ختم نہیں ہوا۔ سینیٹر سیف الرحمان مجھے سبق سکھانے کی تاک میں تھے۔

12؍اکتوبر 1999ء کو شائع ہونے والے میرے کالم پر وہ اتنے سیخ پا تھے کہ انہوں نے مجھ پر انکم ٹیکس چوری کا مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیدیا لیکن اسی شام کو نواز شریف صاحب کی حکومت ختم ہو گئی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت برطرف کر دی تھی لیکن کئی روز تک اسمبلیاں برقرار رکھیں۔

اسلام آباد کی منسٹرز کالونی میں مشاہد حسین اور اسحاق ڈار کے سوا باقی تمام وزراء ایک دوسرے کو مل سکتے تھے۔ 13؍ اکتوبر 1999ء کو جاوید ہاشمی کے گھر کچھ وزراء خاموشی سے اکٹھے ہوئے اور آئندہ کے لائحہ عمل پر صلاح مشورہ کیا۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ نواز شریف اور شہباز شریف گرفتار تھے۔ مسلم لیگ (ن) قیادت کے بحران سے دوچار تھی۔ اس اجلاس میں جاوید ہاشمی نے تجویز پیش کی کہ بیگم کلثوم نواز سے پارٹی کی قیادت سنبھالنے کی درخواست کی جائے۔ تہمینہ دولتانہ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ بیگم کلثوم نواز سے رابطہ کریں اور انہیں پارٹی کی قیادت سنبھالنے پر راضی کریں۔ دو دن بعد تہمینہ دولتانہ بھیس بدل کر اسلام آباد سے جاتی امرا پہنچیں اور بیگم کلثوم نواز کو اپنے ساتھیوں کی رائے سے آگاہ کیا۔ بیگم صاحبہ نے اپنے سسر میاں محمد شریف سے مشورے کے بعد ہاں کر دی۔

جب بیگم کلثوم نواز نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھالی تو نواز شریف فوجی حکومت کی حراست میں تھے۔ بیگم صاحبہ نے پارٹی کو متحرک رکھنے کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ لاہور سے چاغی تک بائی روڈ سفر کیا اور جگہ جگہ جلسے کئے۔

مشرف حکومت اسمبلی کے اندر سے تبدیلی لانا چاہتی تھی۔ بیگم صاحبہ نے یہ کوشش ناکام بنا دی اور یوں مشرف حکومت اسمبلیاں ختم کرنے پر مجبور ہو گئی۔

جولائی 2000ء میں بیگم کلثوم نواز نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ حکومت نے اُنہیں لاہور میں گرفتار کرنے کی کوشش کی تو اُنہوں نے گاڑی کے دروازے لاک کر دیئے لہٰذا بیگم صاحبہ کی گاڑی کو کرین کے ذریعہ اٹھا لیا گیا۔ گاڑی میں جاوید ہاشمی، تہمینہ دولتانہ اور چوہدری صفدر الرحمان بھی موجود تھے۔ اس واقعے پر میں نے ’’کلثوم نواز کا وزن‘‘ کے عنوان سے کالم میں لکھا کہ ایک خاتون خانہ کا سیاسی وزن اتنا بڑھ گیا ہے کہ فوجی حکومت اُسے اٹھانے کے لئے کرین استعمال کر رہی ہے۔

بیگم کلثوم نواز کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اُنہوں نے اپنی بھاگ دوڑ سے نوابزادہ نصر اللہ خان کے ذریعہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اے آر ڈی بنانے پر راضی کر لیا۔ ان دنوں میری بیگم کلثوم نواز سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اُن کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ عام سیاستدانوں کی طرح غلط بیانی سے گریز کرتی تھیں۔ ایک دفعہ میں نے سینیٹر مشاہد اللہ خان کی موجودگی میں اُن سے پوچھا کہ سنا ہے نواز شریف صاحب کی رہائی کے لئے حکومت سے ڈیل ہونے والی ہے؟ بیگم صاحبہ نے محتاط انداز میں کہا کہ رابطے ہوئے تھے لیکن فی الحال ایسی کوئی بات نہیں۔

کچھ دن کے بعد نواز شریف اپنے خاندان سمیت سعودی عرب چلے گئے اور بیگم کلثوم نواز کا مختصر سیاسی کردار تمام ہوا۔ پچھلے سال نواز شریف صاحب علیل تھے تو لندن کے ایک اسپتال میں نواز شریف بستر پر تھے اور بیگم صاحبہ اُن کے سرہانے بیٹھی تھیں۔ آج بیگم صاحبہ علیل ہیں اور نواز شریف اُن کی تیمار داری کر رہے ہیں۔

لاہور کے حلقہ این اے 120کے ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد بیگم کلثوم نواز دوبارہ سیاست میں آ چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے اُن کی جلد از جلد صحت یابی کی دعا ہے تاکہ وہ پاکستان واپس آ کر سیاست میں مثبت کردار ادا کریں اور مسلم لیگ (ن) کو سیف الرحمان جیسے کرداروں سے بچائیں جو ہر دور حکومت میں بیرون ملک سے آ کر تباہی مچاتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔