Time 16 اکتوبر ، 2017
بلاگ

فوج اور جمہوریت

دیانت داری انسانی کردار کی ایک بہت بڑی خوبی ہے لیکن جب کوئی اپنی دیانت داری کے زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے تو پھر یہ خوبی ایک تکلیف دہ خامی بن جاتی ہے۔

حب الوطنی کا اظہار قول کی بجائے فعل سے کیا جائے تو یہ حب الوطنی کسی تمغے کی محتاج نہیں رہتی بلکہ ایک انسان کی حب الوطنی پر پوری قوم بھی ناز کرتی ہے لیکن جب اس حب الوطنی میں گھمنڈ شامل ہو جائے تو پھر یہ محض ایک دکھاوا کہلاتی ہے۔

اسی طرح جمہوریت بھی ایک ایسا طرز سیاست ہے جس کی کامیابی محض زبانی کلامی دعوؤں کے ذریعہ ممکن نہیں بلکہ جمہوریت کی کامیابی عملی اقدامات سے مشروط ہے۔

جمہوریت سماجی انصاف کا دوسرا نام ہے اور سماجی انصاف قانون کی بالادستی کے بغیر ممکن نہیں لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں دیانت داری کے زعم میں مبتلا سیاست دانوں اور حب الوطنی کے گھمنڈ سے دوچار فوجی ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ آئین و قانون کو اپنی زر خرید لونڈی بنانے کی کوشش کی۔ان کوششوں میں جن ججوں نے سیاست دانوں اور ڈکٹیٹروں کا ساتھ دیا انہیں انعام میں سیاسی عہدے ملے لیکن تاریخ میں صرف رسوائی ملی۔ جنہوں نے انکار کیا انہیں قوم نے عزت دی ۔

قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہمیں اصلی جمہوریت ملی نہ ہی اصلی ڈکٹیٹر شپ آئی۔ اکثر جمہوری حکمراں پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کو ڈکٹیٹرشپ میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہے اور ہر ڈکٹیٹر نے جعلی انتخابات کے ذریعے دنیا کے سامنے اپنے آپ کو ڈیموکریٹ ثابت کرنے کی کوشش کی۔

تاہم تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود جمہوریت پاکستان کو زیادہ راس آئی ۔کرپٹ اور گندے جمہوری ادوار میں پاکستان کی جغرافیائی حدود میں اضافہ ہوا لیکن ڈکٹیٹرشپ میں کبھی ہم نے مشرقی پاکستان کھویا اور کبھی سیاچن کی چوٹیاں دشمن کے قبضے میں چلے گئیں۔

کچھ عرصہ سے ایک دفعہ پھر ملک میں مارشل لا اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے بارے میں افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں لیکن فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ہفتہ کی شام ایک پریس کانفرنس میں ان تمام افواہوں کو مسترد کر دیا اور کہا کہ جمہوریت کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں ۔

ہمیں ماننا پڑے گا کہ یہ بات وزیر اعظم کہتے تو کوئی یقین نہ کرتا لیکن یہ بات ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کہی تو ہر کسی نے بڑی توجہ سے سنی۔ فوج کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ آئین سے بالا کچھ نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا جمہوریت کو فوج سے نہیں عوامی امنگیں اور جمہوری تقاضے پورے نہ ہونے سے خطرہ ہو سکتا ہے۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں فوج کو جمہوریت کیلئے ایک خطرہ کیوں سمجھا جاتا ہے؟ اس ملک میں چار دفعہ مارشل لا آئے اور ہر مارشل لا کو کچھ سیاست دانوں نے خود آواز دی۔ جس طرح ہر مارشل لاکے پیچھے صرف فوج نہیں بلکہ کچھ سیاست دان بھی ہوتے ہیں اسی طرح مار شل لا کو روک کر رکھنا صرف فوج کا نہیں بلکہ سیاست دانوں کا بھی کام ہے۔

ریاستی اداروں میں اختلاف رائے بہت سے جمہوری ممالک میں ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں جب بھی یہ اختلاف سامنے آتا ہے تو کچھ سیاست دان اور دانشور مار شل لا کو آوازیں دینے لگتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہمارے ہمسائے میں واقع ہے۔ بھارت میں ایک سے زائد مرتبہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی آئینی ترامیم کو مسترد کیا لیکن وہاں پر کبھی کسی نے جوڈیشل مارشل لا کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔

کچھ عرصہ قبل بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے ججوں کی تقرری اور تبادلے سے متعلق طریقہ کار کے بارے میں ایک نیا قانون بنایا اور دوتہائی اکثریت سے منظور کر لیا۔سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیاکسی نے اسے پارلیمنٹ کی توہین قرار نہیں دیا۔

پاکستان اور بھارت کی سیاسی حکومتوں نے ایک سے زائد بار سیاچن سے فوجوں کی واپسی پر اتفاق کر لیا لیکن ہر بار بھارتی فوج نے اپنی حکومت کی پالیسی سے اعلانیہ اختلاف کیا۔ 1989ء میں راجیو گاندھی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان معاہدہ بھارتی فوج نے سبوتاژ کیا۔

2006ء میں من موہن سنگھ اور پرویز مشرف سیاچن سے فوجوں کی واپسی پر متفق ہو گئے لیکن بھارتی آرمی چیف جنرل جوگندر جسونت سنگھ(جے جے سنگھ) نے اخباری بیانات کے ذریعے ایسے کسی معاہدے کو بھارت کے قومی مفاد کے منافی قرار دیا۔جے جے سنگھ کے بیانات پر بہت بحث ہوئی لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ انہوں نے وزارت دفاع کے سیکریٹری سے اجازت لئے بغیر انڈین ایکسپریس کو بیان کیوں دیدیا؟میری ناچیز رائے میں ایک آرمی چیف کو اس قسم کے معاملات میں میڈیا پر رائے زنی سے گریز کرنا چاہئے لیکن پاکستان اور بھارت میں جمہوریت ارتقائی دور سے گزر رہی ہے۔ جس ملک کی پارلیمنٹ میں امیر لوگوں کا غلبہ ہو جائے وہاں عدلیہ اور فوج بے اختیار مڈل کلاس کی ترجمان بننے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

بنگلہ دیش کی مثال لے لیجئے بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ نے ججوں کے احتساب کا اختیار حاصل کیا تو سپریم کورٹ نے بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم کو مسترد کر دیا۔پارلیمنٹ نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سرنیدرا کمار سہنا کے خلاف قرارداد منظور کرلی۔جسٹس سہنا نے اپنی پارلیمنٹ کو پاکستان کی مثال دی اور کہا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور نواز شریف نے اقتدار چھوڑدیا۔

پاکستان کی مثال دینے پر حکمراں جماعت اتنی سیخ پا ہوئی کہ جسٹس سہنا پر منی لانڈرنگ کا الزام لگا دیا جس کے بعد وہ چھٹی پر جا چکے ہیں۔یقیناً پاکستان میں نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے کو تاریخی ناانصافی قرار دینے والوں کی کمی نہیں لیکن بنگلہ دیش کا ایک ہندو چیف جسٹس اپنے ملک میں پاکستان کو ایک اچھی مثال کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔

ہمیں اپنی غلطیوں کی نشاندہی ضرور کرنی چاہئے اور غلطیوں سے سبق بھی سیکھنا چاہئے لیکن پاکستان میں سب برا نہیں کچھ اچھا بھی ہو رہا ہے ۔پچھلے چند دنوں میں کیا کچھ نہیں ہوا۔وفاقی وزیر داخلہ نے رینجرز کے خلاف بیان دیا لیکن مارشل لا نہیں آیا مریم نواز کی احتساب عدالت میں پیشی پر عدالت کے اندر نعرے بازی ہوئی عدالت کے باہر ہنگامہ ہوا لیکن مار شل لانہیں آیا۔ فوج کے ترجمان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ معیشت بہت بری نہیں تو بہت اچھی بھی نہیں ۔اس بیان کو وزیر داخلہ نے غیر ذمہ دارانہ کہا جواب میں مارشل لا کی بجائے فوجی ترجمان کی وضاحت آگئی اور وزیر داخلہ نے یہ وضاحت قبول کرلی۔

یہی عوامی امنگیں اور جمہوری تقاضے ہیں عوام کو نہ فوجی مارشل لا چاہئے نہ سویلین ڈکٹیٹر شپ چاہئے ۔عوام کو ایک ایسی جمہوریت چاہئے جس میں قانون سب کیلئے برابر ہو عوام کو جمہوریت بھی چاہئے اور فوج بھی چاہئے ۔عوام جانتے ہیں جہاں فوج کمزور ہو جائے وہاں عراق اور افغانستان بن جاتا ہے جہاں جمہوریت کمزور ہو جائے وہاں مضبوط سے مضبوط فوج بھی دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

مضبوط جمہوریت اور مضبوط فوج کے ساتھ ساتھ مضبوط عدلیہ اور آزاد میڈیا پاکستان کی سلامتی کے ضامن ہیں ان سب اداروں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کو مضبوط کریں اور آئین سے باہر نہ جائیں۔

یہ کالم 16 اکتوبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔



جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔