19 اکتوبر ، 2017
موت کے بعد دنیا اُس کی عظمت کو سلام کر رہی ہے لیکن اُس کی عظمت کا یہ سفر کرب کا سفر تھا۔ یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک مالٹا کی خاتون صحافی ڈیفنی کاروانہ گالیزیا کے وجود کو ایک بم دھماکے میں بکھیر دیا گیا۔ بم دھماکے کی آواز سن کر ڈیفنی کا بیٹا میتھیو بھاگتا ہوا اپنی ماں کی گاڑی کے پاس پہنچا تو وہاں صرف آگ اور دھواں تھا۔
دو پولیس والے بھی موقع پر پہنچ گئے۔ اُنہوں نے میتھیو سے پوچھا کہ اس گاڑی میں کون تھا؟ میتھیو نے اپنے اردگرد بکھرے ہوئے انسانی وجود کے چیتھڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ میری ماں تھی۔ ڈیفنی کی المناک موت نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ آزادیٔ اظہار یورپ میں بھی ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہے اور صحافت دن بدن ایک خطرناک پیشہ بنتا جا رہا ہے۔
صحافیوں کا کام سچ بولنا اور سچ لکھنا ہے لیکن یہی سچ اُن کی زندگی کے لئے بہت بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔ زندہ رہنے کے لئے وہ سمجھوتے کرتے ہیں اور سمجھوتے کرتے کرتے بہت سے بھروسے کھونے لگتے ہیں۔ بھروسے قائم رکھنے کے لئے سمجھوتے سے انکار کرنے والے صحافیوں کا انجام ڈیفنی کاروانہ گالیزیا جیسا ہوتا ہے جس کی یاد میں یورپ کے کئی شہروں میں شمعیں جلائی گئیں لیکن یہ شمعیں میتھیو کو اُس کی ماں واپس نہیں دلا سکتیں۔
ڈیفنی نے فروری 2016ء میں مالٹا کی حکومت کے ایک وزیر کونارڈ میزی اور وزیراعظم جوزف مسکت کے قریبی ساتھی کیتھ شیمبری کی نیوزی لینڈ میں آف شور کمپنیوں کو بے نقاب کیا۔
موت سے آدھ گھنٹہ قبل ڈیفنی نے اپنے بلاگ پر لکھا کہ جس طرف دیکھو جرائم پیشہ افراد نظر آتے ہیں صورتحال بہت بگڑ چکی ہے۔ کچھ ہی دیر میں ان جرائم پیشہ افراد نے ڈیفنی کی آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا۔ لیکن ڈیفنی کی موت اس کی شکست نہیں بلکہ کامیابی بن چکی ہے کیونکہ اُس کی آواز کروڑوں آوازوں میں بدل چکی ہے۔ ڈیفنی کی موت سے قبل کوئی نہیں جانتا تھا کہ مالٹا کا وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر دونوں ڈیفنی سے نفرت کرتے تھے کیونکہ ڈیفنی نے ان دونوں کی کرپشن کو بے نقاب کیا۔ 53سالہ ڈیفنی نے 1987ء میں صحافت شروع کی۔
پہلے وہ کالم لکھتی تھی پھر ایک اخبار کی ایڈیٹر بن گئی لیکن حکومت اور سیاست میں موجود جرائم پیشہ افراد اپنے اثرورسوخ کے ذریعہ اُس کی آواز دبانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ کبھی اُس کے اخبار کی انتظامیہ دبائو میں آ جاتی کبھی اُس کی تحریر کو ذاتی حملہ قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا۔ تنگ آ کر ڈیفنی نے سوشل میڈیا پر اپنا بلاگ بنایا اور رننگ کمنٹری کے نام سے حکومت اور اپوزیشن کی اہم شخصیات کے اصل چہروں کو بے نقاب کرنے لگی۔ کچھ ہی عرصے میں اُس کے قارئین کی تعداد مالٹا کی کل آبادی سے بھی بڑھ گئی اور اسے ’’ون ویمن وکی لیکس‘‘ کا خطاب مل گیا۔ پچھلے سال اُسے یورپ کی اُن 28شخصیات میں شامل کیا گیا جنہوں نے یورپ کو ہلا دیا۔
موت سے آدھ گھنٹہ قبل ڈیفنی نے اپنے بلاگ پر لکھا کہ جس طرف دیکھو جرائم پیشہ افراد نظر آتے ہیں صورتحال بہت بگڑ چکی ہے۔
ڈیفنی نے فروری 2016ء میں مالٹا کی حکومت کے ایک وزیر کونارڈ میزی اور وزیراعظم جوزف مسکت کے قریبی ساتھی کیتھ شیمبری کی نیوزی لینڈ میں آف شور کمپنیوں کو بے نقاب کیا۔ اپریل 2016ء میں پانامہ پیپرز کا اسکینڈل منظر عام پر آیا تو ڈیفنی کا موقف صحیح ثابت ہو گیا۔ ڈیفنی نے اپنے وزیر اعظم کی اہلیہ کے نام پر ایک آف شور کمپنی بھی ڈھونڈ نکالی جس کے بعد ملک میں اتنا بڑا سیاسی بحران آیا کہ وزیراعظم کو جون 2017ء میں قبل از وقت انتخابات کرانے پڑ گئے۔
انتخابات کے بعد جوزف مسکت ایک دفعہ پھر وزیر اعظم بن گئے اور ڈیفنی کی زندگی کے لئے خطرات بڑھ گئے۔ وہ وزیراعظم کے علاوہ اپوزیشن لیڈر ایڈرین ڈیلیا کو بھی معاف نہیں کرتی تھی۔ پولیس اور خفیہ ادارے بھی اُس سے تنگ تھے۔ 2013ء میں وہ گرفتار بھی ہو چکی تھی۔ کچھ دن پہلے اُس نے اپنے بچوں کو دھمکی آمیز پیغامات سے آگاہ کیا اور پولیس کو رپورٹ بھی درج کرائی لیکن اُس کی حفاظت کے لئے کوئی قدم نہ اٹھایا گیا۔ عام لوگ اُسے سچ کی دیوی قرار دیتے لیکن حکمران طبقہ اُسے صحافتی دہشت گرد کہتا تھا۔ پانامہ پیپرز اسکینڈل نے اُس کی عظمت میں اضافہ کیا لیکن اس عظمت نے اُسے اور اُس کے خاندان کو ایک کرب سے دوچار کر دیا۔ یہ دھمکیوں اور خوف کا کرب تھا۔
ڈیفنی نے دھمکیوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور ماری گئی۔ اُس کی موت پر مالٹا پولیس کا ایک افسر اتنا خوش ہوا کہ اُس نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ڈیفنی کے ساتھ یہی کچھ ہونا چاہئے تھا۔ مذکورہ پولیس افسر کو معطل کیا جا چکا ہے لیکن آپ سوچ سکتے ہیں کہ ڈیفنی کے لئے ریاستی عناصر کے دلوں میں کتنی نفرت تھی؟ جو ریاست ایک صحافی کے سچ سے لرزنے لگے وہ ریاست زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔
پاکستان کی ریاست آزادیٔ اظہار سے اتنی الرجک ہے کہ بعض اوقات صحافیوں کو دھمکیاں دینے والے ملک دشمن غیر ریاستی عناصر کو بھی میڈیا کے خلاف استعمال کرنے سے نہیں گھبراتی۔
کچھ ہفتے قبل بھارت کے شہر بنگلور میں ایک سینئر صحافی گوری لینکیش کو گولی مار کر قتل کیا گیا تو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر جشن منایا۔ 55سالہ گوری لینکیش حکمران جماعت کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کی ناقد تھیں۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش صحافیوں کے لئے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ پاکستان میں پچھلے دس سال کے دوران سو سے زیادہ صحافی قتل کئے جا چکے ہیں اور صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے واقعات ایک معمول بن چکے ہیں۔ صحافیوں کے خلاف جرائم میں ریاستی عناصر اور غیر ریاستی عناصر دونوں ملوث ہیں۔
پاکستان کی ریاست آزادیٔ اظہار سے اتنی الرجک ہے کہ بعض اوقات صحافیوں کو دھمکیاں دینے والے ملک دشمن غیر ریاستی عناصر کو بھی میڈیا کے خلاف استعمال کرنے سے نہیں گھبراتی۔ پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن آزادی صحافت ہر طرف سے خطرات میں گھری ہوئی ہے۔ حکومت کے اندر موجود حکومت بھی صحافیوں کو دباتی ہے اور حکومت سے باہر موجود حکومت بھی آزادیٔ اظہار سے خائف رہتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر بڑے بڑے سیاستدانوں کی انا مجروح ہو جاتی ہے۔
ایک جملے یا ایک ٹویٹ سے ایٹمی پاکستان کا قومی مفاد خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پھر اس قومی مفاد کو بچانے کے لئے کسی صحافی کو اغوا کر لیا جاتا ہے کسی کو خاموش کرنے کے لئے آف ایئر کر دیا جاتا ہے۔ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی بجائے بندوق کی طاقت استعمال کی جاتی ہے اور جب کوئی قلم کے مقابلے پر بندوق کی طاقت استعمال کرتا ہے تو دراصل اپنی کمزوری اور بزدلی کا اعتراف کرتا ہے۔ یہ بزدل لوگ چھپ کر وار کرتے ہیں۔ سامنے نہیں آتے لیکن انہیں خود کو بہادر کہلوانے کا بہت شوق ہوتا ہے۔
صحافت کے لئے باہر سے نہیں اندر سے بھی خطرات بڑھ گئے ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں نے اپنے پالتو صحافیوں کے ذریعہ اس پیشے کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے لیکن عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ اصلی اور نقلی کون کون ہے؟ پاکستان کے صحافیوں کو آج متحد ہو کر آزادیٔ اظہار کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیفنی کاروانہ گالیزیا کی موت یہ پیغام دے رہی ہے کہ موت سے مت گھبرائو۔ ایک سچے صحافی کی کربناک موت دراصل اُسے ہمیشہ کیلئے زندہ کر دیتی ہے اور قاتلوں کو پوری دنیا کے سامنے تماشا بنا دیتی ہے۔ ان قاتلوں کو کوئی عدالت سزا دے یا نہ دے لیکن تاریخ میں یہ لوگ بزدل، سازشی، قاتل اور جرائم پیشہ کہلاتے ہیں۔
یہ کالم روزنامہ جنگ میں 19 اکتوبر 2017 کو شائع ہوا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔