کھیل
Time 28 اکتوبر ، 2017

سری لنکن کرکٹ کا مسیحا ۔۔۔ مہر خلیل

3 مارچ 2009 کا دن پاکستان اور دنیائے کرکٹ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، اس دن سری لنکا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ایک میچ کھیلا جانا تھا، سری لنکا کی کرکٹ ٹیم صبح سے تیار تھی، اسے اسٹیڈیم تک لے جانے کے لیے ایک بڑی بس پرل کانٹیننٹل ہوٹل میں تیار کھڑی تھی، سری لنکن ٹیم کے کھلاڑی خوش گپیاں کرتے ہوئے بس میں سوار ہو رہے تھے، انہیں کیا معلوم تھا کہ آج ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

سری لنکن ٹیم کا بس ڈرائیور اپنے مخصوص راستوں سے ہوتا ہوا مال روڈ سے جیل روڈ اور پھر وہاں سے گلبرگ میں بلیوارڈ پر جا رہا تھا۔ بس میں سوار سری لنکن کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی لاہور کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔

بس جب لبرٹی مارکیٹ پہنچی تو اس پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا، بس میں سوار تمام افراد اس صورت حال سے گھبرا گئے اور خوف و دہشت کے مارے چیخنے چلانے لگے۔ 

اس دوران اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے بس کے ڈرائیور نے بس کو فوری طور پر قذافی اسٹیڈیم میں پہنچا دیا۔ اس طرح دہشت گردوں کے حملے میں سری لنکن کرکٹ ٹیم محفوظ رہی۔ 

یہ واقعہ بہت خوفناک صورت حال بھی اختیار کرسکتا تھا، لیکن کہتے ہیں کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے، کئی پولیس والوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی دیا تاکہ ملک کی عزت پر حرف نا آ سکے، لیکن ایک بڑا کردار اس بس ڈرائیور کا تھا جس کا نام مہر خلیل ہے۔

مہر خلیل نے جیونیوز کو اس واقعہ کے ایک روز بعد لبرٹی چوک میں ایک انٹریو میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے انہیں جرأت عطا ہوئی اور انہوں نے کسی قسم کی دہشتگردی اور فائرنگ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فوری فیصلہ کیا کہ لبرٹی چوک میں رکنے کی بجائے انہیں بس بھگا کر لے جانا ہوگی اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ 

مہر خلیل کا جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بس کو تیز رفتاری سے قذافی اسٹیڈیم کے اندر لے جانا پاکستان کی آبرو اور سری لنکن ٹیم کی جان بچانے کا سبب بن گیا۔ 

دہشت گردوں کے مقاصد پورے نہ ہوئے اور پاکستان اقوام عالم میں سرخرو ہوا، اگرچہ پاکستان پر انٹرنیشنل کرکٹ کےدروازے بند ہوگئے لیکن پاکستانی قوم اورپی سی بی نے ہمت نہ ہاری اور کرکٹ کی بحالی کی جدوجہد جاری رکھی، سات سال بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے بند دروازے کھل گئے۔

بس ڈرائیور مہر خلیل کو سری لنکن ٹیم پر حملہ کے دوران اپنے ہواس برقرار رکھنے اور کرکٹرز کی جان بچانے کے دوران جرأت کا مظاہرہ کرنے پر جیو نیوز کی جانب سے ایک لاکھ روپے انعام سے نوازا گیا تھا۔ 

 وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، پی سی بی اور تاجر تنظیموں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے بھی مہر خلیل کو انعام و اکرام سے نوازا اور انہیں قومی ہیرو کا بھی درجہ دیا گیا۔

مہر خلیل کو سری لنکن حکومت نے ان کی بہادری اور جرأت کے عوض انہیں سری لنکا میں اسٹیٹ گیسٹ کا درجہ دیا اور ان کی فیملی کو دس دن تک سری لنکا میں بطور سرکاری مہمان رکھا اور انعام و اکرام سے نوازا۔

مہر خلیل اس واقعہ کے بعد اپنی فیملی کے ہمراہ جنوبی افریقا چلے گئے، وہاں اپنا کاروبار شروع کرلیا اور کچھ سال وہاں گزارنے کے بعد واپس وطن آچکے ہیں اور لاہور میں خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

مہر خلیل نے پی سی بی حکام سے درخواست کی تھی کہ اگر سیکورٹی مسائل آڑے نہ آئیں تو وہ سری لنکن کرکٹ ٹیم کو اپنے گھر کھانے پر بلانا چاہتے ہیں تاکہ سری لنکا کو احساس دلایا جا سکے کہ پاکستانی احسان فراموش نہیں اور وہ اپنے مہمانوں کو عزت اور احترام دینا جانتے ہیں۔

جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مہر خلیل نے کہا کہ انہیں پی سی بی سے شکوہ ہے کہ وہ انہیں کسی بھی انٹرنیشنل کرکٹ میچ میں نہیں بلاسکتے تو کم از کم جب سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان آئے تو ان کو بلا کر تعارف ہی کرایا جائے اور انہیں اعزاز کے ساتھ میچ دیکھنے کی دعوت دی جائے۔

مہر خلیل نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں جو عزت اس واقعہ کے بعد ملی ہے اسے یادگار بنایا جائے تاکہ دوسرے پاکستانی بھی وطن سے محبت کے اظہار میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ کریں۔

مزید خبریں :