پاکستان
Time 09 نومبر ، 2017

’آئندہ مہینوں میں خیبرپختونخوا، بلوچستان میں ڈرون حملے ہوسکتے ہیں‘

فائل فوٹو/ اے ایف پی—۔

واشنگٹن: ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ آئندہ مہینوں میں ڈرون حملوں کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقوں تک توسیع دے سکتی ہے کیونکہ پاکستان کا امریکی خواہشات کے مطابق اپنا رویہ تبدیل کرنے کا امکان نہیں ہے۔

ووڈرو ولسن سینٹر واشنگٹن میں جنوبی ایشیا کے لیے سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین نے کہا کہ پاک-امریکا تعلقات نازک نکتے پر پہنچ چکے ہیں اور آنے والے مہینوں میں اگر امریکا نے محسوس کیا کہ پاکستان نے اس کے مطالبات کا جواب نہیں دیا ہے تو امریکا نئے قسم کےدباؤ کو استعمال کرسکتا ہے جو اس سے قبل نہیں کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ نئے اقدام سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مستقبل بنیادوں پر ڈرون حملوں میں جغرافیائی توسیع ہوسکتی ہے۔

ایک خصوصی انٹرویو میں مائیکل کوگل مین نے کہا کہ تاریخی طور پر امریکا نے پاکستان کو دھمکیاں دی ہیں لیکن ہمیشہ پیچھے ہٹ گیا لیکن اس مرتبہ ٹرمپ انتظامیہ کا معاملہ مختلف ہو سکتا ہے اور اس سے نئی کشیدگی پیدا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بلوچستان میں صرف ایک ڈرون حملہ ہوا تھا جب طالبان لیڈر ملا منصور کو ایران کے ساتھ پاکستانی سرحد پر امریکی حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ امریکا، خیبرپختونخوا میں ایسا ہی کر سکتا ہے جبکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ امریکا انفرادی طور پر پاکستان کے فوجی یا انٹیلی جنس حکام پر پابندی لگانے کی کوشش کرے، جن کے بارے میں اسے یقین ہو کہ ان کا عسکریت پسندوں سے واضح تعلق ہے۔

مائیکل کوگل مین کے مطابق امریکا پاکستان کا نان نیٹو اتحادی کا درجہ بھی ختم کر سکتا ہ اور اگرچہ یہ علامتی ہوگا لیکن یہ پاکستان کی ساکھ کے لیے ایک دھچکا ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب مائیکل کے خیال میں پاکستان کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ کی خواہش کے مطابق جواب دینے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ کسی بھی انتہائی اقدام پر امریکا کے لیے بھی قابل ذکر خطرہ موجود ہے کیونکہ پاکستان ایسے انداز میں جواب دے سکتا ہے جو امریکی مفادات کے لیے بہت خطرناک ہو سکتے ہیں، اسلام آباد نیٹو کے سپلائی کے راستے بند کر سکتا ہے جس کی امریکا کو بہت سخت ضرورت ہے کیونکہ متبادل راستہ بہت مہنگا ہے اور آسان نہیں ہے۔

پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے معاملے پر کوگل مین نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ میں اس حوالے سے کشمکش ڈسپلن کی کمی کا نتیجہ ہو سکتی ہے یا پاکستان اور بھارت کے ساتھ معاملات کو اچھا رکھنے کی حکمت عملی میں کمی کی وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ٹرمپ انتظامیہ میں نظم و ضبط کی کمی کی وجہ سے ہوسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ٹرمپ انتظامیہ کا بھارت کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے کا اقدام بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اگر واشنگٹن سی پیک پر تنقید کرتا رہتا ہے تو اس سے امریکا کو بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہت فائدہ ہوگا۔

امریکی عہدیدار نے کہا کہ ان کے خیال میں امریکی حکومت کے پاس سی پیک کی حمایت کرنے کی اچھی خاصی وجوہات موجود ہیں کیونکہ سی پیک کے مقاصد پاکستان میں امریکی مفادات سے بہت زیادہ ہم آہنگ ہیں، تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک میں تعلقات ختم نہیں ہوں گے کیونکہ کشیدگی کے باوجود دونوں فریق تعاون کی خواہش اور کافی خیر سگالی رکھتے ہیں۔ 

نوٹ: یہ رپورٹ 9 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی

مزید خبریں :