دنیا
Time 22 نومبر ، 2017

’’بوسنیا کا قصاب‘‘ نسل کشی کا مجرم قرار، عمر قید کی سزا سنادی گئی

راتکو ملادیچ پر عائد 11 میں سے 10 الزامات کو درست قرار دیا گیا — فوٹو: رائٹرز

عالمی فوجداری عدالت نے بوسنیا جنگ کے دوران سرب فوج کی کمانڈ کرنے والے راتکو ملادیچ المعروف ’’بوسنیا کا قصاب‘‘ کو نسل کشی اور جنگی جرائم کا مجرم ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنادی۔

امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق دی ہیگ میں سابق ریاست یوگوسلاویہ میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے انٹرنیشنل کرمنل ٹریبونل میں ہونے والی سماعت میں راتکو ملادیچ کو جنگ کے دوران نسل کشی اور دیگر مظالم کے 11 میں سے 10 الزامات پر مجرم ٹھہرایا گیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنادی گئی۔

سماعت کے دوران جب ججز نے اپنے ریمارکس دینا شروع کیے تو راتکو ملادیچ نے شور مچانا شروع کردیا اور ججز کو جھوٹا کہنے لگا۔ ملادیچ کے وکیل نے ججز سے درخواست کی کہ سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کی جائے کیوں کہ ان کے موکل کا بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے۔

ججز نے درخواست مسترد کرتے ہوئے سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور سیکیورٹی گارڈز کو طلب کرکے ملادیچ کو کمرہ عدالت سے باہر لے جانے کی ہدایت کی۔ ملادیچ کو علیحدہ کمرے میں منتقل کیا گیا جہاں سے انہوں نے بقیہ عدالتی کارروائی دیکھی۔

1992 سے 1995 تک جاری رہنے والی بوسنیا جنگ کے دوران نسل کشی اور دیگر جرائم پر ملادیچ کے خلاف 2012 میں دی ہیگ میں عالمی فوجداری ٹریبونل برائے یوگوسلاویہ میں مقدمہ شروع ہوا تھا۔

جنگ ختم ہونے کے بعد ملادیچ روپوش ہوگیا تھا اور اسے سربیا میں پناہ مل گئی تھی تاہم 16 سال تک مفرور رہنے کے بعد 2011 میں ملادیچ کو شمالی سربیا میں اس کے کزن کے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا۔

ملادیچ کے خلاف مقدمہ 530 روز تک جاری رہا جس کے دوران 500 سے زائد گواہان اور 10 ہزار سے زائد دستاویزی شواہد پیش کیے گئے۔

بوسنیا کی جنگ

بوسنیا کی جنگ 1992 سے 1995 تک بوسنیا و ہرزیگووینا میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں جمہوریہ بوسنیا و ہرزیگووینا کی فوج اور خودساختہ بوسنیائی سرب اور بوسنیائی کروش کی فورسز کے درمیان لڑائی ہوئی۔

ملادیچ کو بوسنیا کا قصائی اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ اس نے 1995 میں جنگ کے اختتام پر ان فوجی دستوں کو کمانڈ کیا تھا جنہوں نے مشرقی بوسنیا کے شہر سربرینیکا میں قتل عام کیا جس میں تقریباً 7000 بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ اس کے علاوہ سرائیوو شہر کے محاصرے کے دوران بھی 10 ہزار سے زیادہ بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کیا گیا تھا۔

اس واقعے کو جنگ عظیم دوم کے بعد یورپی سرزمین پر بدترین نسل کشی قرار دیا جاتا ہے اور یہ قتلِ عام بوسنیا کی جنگ کے اختتام سے چند ماہ قبل کیا گیا جب 20 ہزار مسلمان مہاجرین نے سرب فوجیوں سے بچنے کے لیے سربرینیکا نقل مکانی کرلی تھی۔

ملادیچ کی کمانڈ میں ہونے والے جرائم

عالمی فوجداری ٹریبونل کے پریزائیڈنگ جج نے راتکو ملادیچ کو سربرینیکا میں مسلمانوں کی نسل کشی کا مجرم قرار دیا اور کہا کہ ملادیچ نے اس نسل کشی کے رونما ہونے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

ملادیچ کو بوسنیا کے دیگر علاقوں میں ہونے والے قتل عام کے الزام سے بری قرار دیا گیا تاہم اسے جنگی جرائم اور انسانیت سوز مظالم کا مجرم ٹھہرایا گیا۔

جج ایلفنز اوری نے ملادیچ کی کمانڈ میں فوجی دستوں کی جانب سےکیے جانے والے جرائم کی تفصیلات بھی بیان کیں اور کہا کہ :

  • فوجیوں نے بوسنیائی خواتین اور لڑکیوں کی عصمت دری کی
  • بوسنیائی قیدیوں کو المناک حالت میں رکھا، انہیں بھوکا پیاسا رکھا اور تشدد کیا
  • سرائیوو میں عام شہریوں پر شیلنگ اور فائرنگ کے ذریعے دہشت پھیلائی
  • بوسنیائی باشندوں کو جبراً بے دخل کیا
  • بوسنیائی مسلمانوں کی املاک، گھروں اور مساجد کو نقصان پہنچایا

          جنگ کے متاثرین کا رد عمل

          بوسنیا جنگ کے متاثرین نے سربرینیکا کے قریب یادگاری مرکز میں اکھٹے ہوکر عدالتی کارروائی دیکھی اور جیسے ہی ملادیچ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی وہاں موجود لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

          اس موقع پر خوشی اور غم کے ملے جلے مناظر دیکھنے میں آئے، بعض افراد طویل عرصے بعد انصاف ملنے پر خوش تھے جب کہ کچھ جنگ میں مارے جانے والے اپنے پیاروں کو یاد کرکے اشکبار نظر آئے۔

          مزید خبریں :